Wednesday, February 6, 2013

صبح نو

کبھی کبھی جب انسانی رشتوں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے تو طبیعت میں ایک جھنجلاہٹ اور چڑچڑاپن ہر وقت ڈسنا شروع کر دیتا ہے۔ ذہن ایک  بنجر زمین کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔ شخصیت کی عمارت کسی ریت کی بنیادوں پر کھڑی دکھائی دیتی ہے انسانیت سے بیزاری، مذہب سے، روح سے ،جسم سے، اپنے آپ سے بیزاری ،اپنے کام سے بیزاری۔ٍ ۔ کل جب کلینک کیلئے گھر سے نکلا ہوں تو سبزی والے کا ٹھیلہ دیکھ کر رک گیا۔ یہ سوچ کر محنت کر کے کمانے والے ایسے لوگوں کا ہم پر بہت حق ہے ،کچھ سبزیوں کے پیسے دے کر اسے کہا کہ انہیں گھر پکڑا دینا ۔ شام کو جب گھر واپس آیا تو معلوم ہوا کہ وہ چن چن کر گلی سڑی سبزی گھر پر دے گیا ہے ۔ غصہ تو حمید صاحب پر بھی آرہا ہے ۔ جودو دن کا کہہ کر ادھار لیکر گئے تھے اور میں نے بجلی اور ٹیلیفون بلوں کی ادائیگی کیلئے رکھے گئے پیسوں میں سے یہ سوچ کر ان کو دے دئیے تھے کہ دو دن کی تو بات ہے۔اور ایک ہفتے بعد جب مجھے بل وصول ہوئے ہیں تو یاد دہانی پر ادھر ادھر کی ہانک رہے ہیں۔ جنریٹر ٹھیک کرنے کیلئے آئے مستری ندیم کو جب کسی پرزے کی ضرورت پڑی تو وہ بازار سے لینے کی غرض سے چند منٹ کا کہہ کر چلا گیا اور شام کو خالی ہاتھ واپس آگیا کیونکہ وہ دوست کے ساتھ کسی جھگڑے کیلئے بنائی گئی پنچائیت کا اکٹھ دیکھنے گاؤں چلا گیا تھااور اب دکانیں بند ہوگئیں تھیں۔ میں نے میاں الیکٹرونکس والوں سے جب مائیکرو ویو کے بارے میں دریافت کیا تو میرا مطلوبہ ماڈل فوری طور پر دستیاب نہ تھا او انہوں نے صرف دو دن کی مہلت لی کہ پرسوں آپ کو مل جائے گا۔اور جب پندرہ دن بعد دوبارہ فون کیا تو صرف دو دن کی مزید مہلت مانگ رہے تھے۔ ر مضان کے پہلے ہفتے ہی بشیر درزی کو عید کے کپڑے سلوانے کیلئے دے دئیے کہ رش کی وجہ سے بعد میں دیر سویر ہوجاتی ہے اور اس کا ایک ہفتے کا وعدہ جمعۃ الوداع میں تبدیل ہوچکا تھا ۔ گھر میں مرمت کا کچھ کام کروانا تھا اور ایک مستری سے بات ہوئی تو اس نے جمعہ کا وعدہ کیا اور میں سارے کام چھوڑ کر دن بھر اس کا انتظار کرتا رہا اور اسے آنا تھا او نہ وہ آیا ۔ اگلے دن جب اس سے رابطہ ہوا تو اس نے معذرت کی کہ اسے کسی کام پر جانا پر گیا تھالیکن اس میں مجھے اطلاع نہ پہنچانے کی شرمندگی کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا۔ اس دن شام کو کلینک سے نکلنے لگا تو ایک فون آیا کہ ایک ایمرجنسی ہے۔ آپ ہمارا انتظار کریں اور اگلے دن جب وہ آئے تومعذرت تو دور کی بات یہ بتانا بھی گوارہ نہیں کیا کہ کل وہ کیوں نہیں پہنچ پائے تھے۔ ابھی کل ہی بیکری سے کچھ فاسٹ فوڈ لیکر گھر گیا جس کے تازہ ہونے کے بارے میں دکاندار نے قسمیں اٹھا کر یقین دھانی کروائی تھی لیکن جب گھر جا کر بدبودار نکلے اور واپس بھیجے تو یہ کہتے ہوئے اسے کوئی شرمندگی نہیں تھی کہ غلطی سے پرانا مال آپ کو چلا گیا تھا۔ دودھ والے کو آپ جتنی مرضی شکائیات لکھوا دیں مگر اس کے پاس آپ کی ہر شکائیت کا معقول جواب ہوتا ہے۔ بھینس کو کل ہی منہ کھڑ کا ٹیکہ لگا تھا۔چارہ پر روزانہ سپرے ہو رہا ہے۔ مکئی دستیاب نہیں اسلئے برسن دینا پڑتا ہے اور آپ کو تو پتا ہی ہے ، خوراک صحیح نہ ہو تو دودھ میں فرق تو آئے گا ۔ اسلم موچی نے جب بیٹی کی رخصتی پر آنے والے اخراجات اور اپنے ہاتھ کی تنگی کا رونا رویا تو مجھے خاصا ترس آگیا اور جتنا ہو سکا ، اس کی مدد کی ۔ لیکن اتفاق سے اس کے گھر کے قریب سے گزر ہوا تو اس کے گھر پر لگی لائیٹیں اور گھر کے باہر مہندی کیلئے جمع مہمانوں کے ہجوم کو دیکھ میرے دماغ کا کھولنا کوئی اچنبھے والی بات نہیں تھی۔مقصود دھوبی مجھ سے صرف اسلئے ایک سال سے ناراض ہے کہ میں نے اسکی ماں کے چالیسویں کیلئے پکنے والی دیگوں میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔محمد موسی کے ساتھ مالی تعاون کیا گیا تو پیسے اس نے پیر صاحب کے لئے بکرا خرید کر خرچ کر لئے کیونکہ ان کی خدمت میں کچھ پیش کئے مدت بیت گئی تھی۔ رمضان ایک دیہاڑی دار مزدور ہے ۔ گھر میں باتھ روم کی تعمیر کیلئے ہاتھ بٹایا تو اس میں ٹائیلیں لگوا کر اس کے خرچے میں مزید اضا فہ کرلیا۔ محبت اور رحم، دین کی اساس بھی ہے اور بنیاد بھی لیکن اہل مذہب ، صاحبان ثروت کے ہاتھوں چڑھ کر کچھ ایسے سنگدل ہوگئے ہیں کہ اس دین کی قسمت میں صرف محرومیاں رہ گئی ہیں۔ دینی مدارس اور مساجد کسی اقتصادی ہلچل کا حصہ بن چکے ہیں۔دین تو قوت فکر کا نام تھااور ضرورت اس بات کی تھی کہ وہ طلب اور جستجو کی وادیوں میں اپنے گھوڑے دوڑاتے پھریں ۔ مگر ہمارے مذہبی حلقے کسی افیون کا شکار ہو کر سوئے ہوئے ہیں ۔مساجد کی تعمیر شروع ہو جائے تو اس غرض سے اگر تعمیر رک گئی تو چندہ بند ہوجائے گا، کوئی نہ کوئی حصہ زیر تعمیر رکھا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کے استعمال میں خیانت کا کبھی احساس تک بیدار نہیں ہوا۔ گھروں میں جا کر قران پڑھ کر مردہ کو بخشانا اور عوض میں دیگوں کے منہ کھول کر دیکھنا مذہب کا افیون نہیں، تو کیا ہے؟۔ ایسے ہی کتنے معاملات ہیں جن میں ہماری غیر ذمہ داری ، لاپرواہی اب بے حسی میں بدل چکی ہے۔ میرا اعتماد انسان سے اور اسکی انسانیت سے اٹھتا جا رہا تھا۔میں گویا خیالات کا قیدی بن چکا تھا ، وحشت کا مارا۔ طبیعت میں ہر وقت ناگواری، بے چینی، اتنا فہم او رضبط کہاں سے لاؤں کہ میں محسوسات کے حد سے بڑھتے حبس کو توڑ سکوں ۔ بجز خاموشی اور برداشت کے کوئی راہ نظر نہیں آ رہی تھی ۔ اور میری جھنجلا ہٹ اور بے چینی میں ہر روز اضافہ ہوئے جا رہا تھا۔ لیکن جب یہ گھٹن اور یہ حبس حدِ جنوں کے کناروں کو چھونے لگا تو منظور حسین ایک تازہ ہوا کا جھانکا بن کر آگیا۔ کئی دن کے حبس کے بعد موسم کھل گیا اور ذہن پر بچھی خزاں ایک دم بہار میں بدل گئی ۔کل جب میں کلینک میں مریض دیکھ رہا تھا تو وہ کمرے میں داخل ہو اور ایک لفافہ میری طرف بڑھایا کہ یہ رکھ لیں ۔ آپ نے یقیناً مجھے پہچانا نہیں ہوگا ۔ پانچ سال پہلے میں آپ کے پاس آیا تھا اور آپ نے پورا سال میری ٹی بی کا علاج اپنے پاس سے کیا تھا۔ اور اب جب میں اپنے پیروں پر کھڑ ا ہوچکا ہوں تو یہ پانچ ہزار اسلئے لایا ہوں کہ جو سلسلہ آپ نے شروع کیا تھا اس کو جاری رکھیں۔
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment