Sunday, February 3, 2013

کونج


کونج
جناح ہسپتال کے آؤٹ ڈور سے نکل کر نیا تعمیر ہونے والا برن یونٹ دیکھنے کی غرض سے باہر آیا تو میری نظر اس پر پڑی۔ سفید شلوارقمیض ، سفید جیکٹ، سیاہ بوٹ ،سر پر سفید ڈوپٹہ، ایک لمحے کو اس سے میری نظریں ٹکرائیں تو چند لمحوں کیلئےمیں وقت کی قید سے نکل گیا۔لیکن وہ رکی نہیں۔ چند قدم چلنے کے بعد مڑی اور ایک بار میری طرف دیکھا تو ہم دونوں کے قدم رک گئے ۔ اس کے بال ابھی بھی کالے تھے ۔ قدرتی سیاہ بھی ہوسکتے تھے لیکن ، اس کے چہرے کی زردی اور  تھکاوٹ اسکی عمر کی چغلی کھا رہی تھی ۔ 
میں اس سے  حمید لطیف ہسپتال میں اس دن ملا تھا جب پرفیسر عزیز صاحب کی اہلیہ کا کیمو تھراپی کا تیسرا سائیکل تھا۔ ۔ میں جب ہسپتال پہنچا ہوں تو ڈاکٹر زیبا ہدایت دے کر رخصت ہو رہی تھیں۔میں نے آنٹی کو سلام کیا اوراور کرسی کھینچ کر ان کے قریب بیٹھ گیا۔ ابھی حال چال پوچھ رہا تھا کہ وہ کمرے میں داخل ہوئی اور آتے ہی دوائیوں والا لفافہ نکالا اور اس میں سے ٹیکے ، ڈرپیں ، سرنجیں، برینولا نکال کر ان کو میز پر ترتیب سے رکھنا شروع کر دیا۔ 
تمہارا نام کس نے رکھا تھا ؟ میں نے پوچھا تو وہ ایک دم چونک گئی، آپ کو میرا نام کیسے پتا چلا ؟ 
 اس کی نظریں بے اختیار سینے کے بائیں جانب لٹکے آئی ڈ ی کارڈ کی طرف اٹھ گئیں۔
 ڈاکٹر زیبا آنٹی سے کہہ کر گئیں تھیں کہ آ پ فکر مت کیجئے گا، سسٹر گل ناز آپ کا بہت خیال رکھے گی۔ میری وضاحت پر اس کے چہرے کا تناؤ کچھ کم ہوا۔
 لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور اپنا کام جاری رکھا۔ ایک ٹیکے کو توڑ کر سرنج میں بھرا اور  ڈرپ اٹھا کر سٹینڈ کے ساتھ لٹکانے لگی۔ میں کچھ دیر تو خاموشی سے اسے دیکھتا رہا اور جب اس نے ٹیکے نکال نکال کر سرنج میں بھرنے اور پھر ان کو ڈرپ میں منتقل کرنا شروع کیے تو میں نے پوچھا کب سے یہاں کام کر رہی ہیں ؟
 اس بار غیر متوقع طور پر فور اً بولی۔ میں جناح ہسپتال میں کام کرتی ہوں۔ سسٹر طاہرہ شادی کے بعد ایک مہینے کی چھٹی پر تھیں تو ڈاکٹر زیبا کے کہنے پر ہسپتال سے چٹھی لے کر ایک ماہ کیلئے یہاں آئی ہوں ۔
 اوہ‘ ،آپ جناح میں ہوتی ہیں!!  میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا ۔میں بھی علامہ اقبال میں تیسرے پراف کی تیاری کر رہا ہوں ۔
 میری بات سن کر بے یقینی میں ایک بار میری طرف دیکھا۔ اور بولی میں آنکولوجی میں ہوتی ہوں ۔
 اس نے بڑھ کر آنٹی کا ہاتھ پکڑا اور ان کے منہ سے ہلکی سی ُ اف کی آواز نکلی اور برینولا لگ چکا تھا۔ جس سرعت سے سوئی لگائی اتنی ہی پھرتی سے ٹیپیں لگا نے کے بعد ڈرپ چالو کردی اور گھڑی ہاتھ میں پکڑ کر گرتے قطروں کا حساب لگانے لگی۔۔ جب اس کام سے فارغ ہوئی تو دوبارہ ٹیکے بھرنے لگی۔
 میرے دوبارہ پوچھنے پر کس شہر سے ہیں؟ تو مختصر سا جواب دیا، قصور سے، لیکن اس بار آواز میں جھجک کچھ کم تھی۔
کتنے بہن بھائی ہیں میں نے حوصلہ پا کر ایک اور سوال داغ ڈالا
ہم سات بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔اور میرا نام میری امی نے رکھا تھا‘‘  ایک ہی سانس میں سب کچھ بتا کر اس نے آنٹی کو تھوڑا کروٹ لینے کو کہا اور انجکشن لگا کر دوبارہ ان کے کپڑوں کو سیدھا کیا۔
والدکیا کرتے ہیں ؟ میں نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔
 امی تو چھوٹے بھائی کی پیدائش پر فوت ہو گئی تھیں اور ا بو ٹی بی کے مرض سے تو نکل آئے ہیں لیکن اب بستر پر زیادہ وقت گذرتا ہے۔
 مجھے وہ سائبریا سے گرم خطوں کو ہجرت کر کے آئی، کوئی پرامید کونج دکھائی دی تھی۔کسی گرم آبی خطوں کے رقص کرتے پرندے کی طرح، کسی دھن میں کھوئی ، کسی امید میں گم۔ وہ ساحل پر کھڑی تھی اور میں کشتی میں کھڑا اس سے باتیں کر رہا تھا۔ وہ بیل پر لگی پہلی کلی تھی جو کھلنے سے پہلے مجھ سے مل رہی تھی۔ اسکی باتوں کا انداز خشک مٹی پر پڑنے والی بوندوں کے بعد اٹھنے والی مہک کا سا تھا۔یا شائد وہ کسی شاداب وادی سے ٹکرا کر میدانی رستوں کو آتی ہوا تھی۔
 لیکن اس سے پہلے میں کوئی اور بات کرتا وہ آنٹی سے طبیعت کا پوچھ کر دوبارہ آنے کا کہہ کر چلی گئی ۔ میں کچھ دیر پاس رکھے اخبار کو لے کر ورق گردانی کرتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر کوریڈور میں آگیا۔ کینٹین دیکھ کر چائے پینے رک گیا ۔ چائے پی کر جب دوبارہ کمرے میں پہنچا تو وہ بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی۔ کوئی گولی کھانے کو دی اور سٹول کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی۔
 کتنے عرصے سے نرسنگ فیلڈ میں ہیں؟ 
 میرے پوچھنے پر بولی ’’سات سال ہو گئے ہیں
 شادی ہو گئی ہے؟ میرے غیر متوقع سوال پر وہ ایک دم چونکی اور پھر کچھ دیر چہرے کے غیر یقینی تاثر کے ساتھ بیٹھی رہی ، گرداب میں پھنسنے کے بعد اس کی کشتی نے ہچکولا کھایا اور جب تھوڑا سا سنبھلی تو بولی،امی کی وفات کے بعد سارے گھر کی ذمہ داری اب میرے اوپر ہے۔ میری چھوٹی دونوں بہنوں کی نسبت ٹھہر چکی ہے ۔ ان کی ذمہ داری ادا ہوگی تو پھر ان سے چھوٹی بہنوں کے بارے میں سوچوں گی۔
 اور اٹھ کر دوبارہ بلڈ پریشر چیک کرنے میں مصروف ہوگئی۔ ڈرپ مکمل ہونے میں کتنی دیر لگ جائے گی؟ میں جانتے ہوئے بھی کہ ابھی تو ڈرپ شروع ہوئی ہے اور اگر کوئی مسئلہ درپیش نہ بھی آیا تو  بھی چھ سات گھنٹے لگ جانے ہیں۔ لیکن میں اس کے منہ سے جواب سننا چاہتا تھا۔
 وہ جب بولتی تھی تو اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ تھا، متانت تھی، وقار تھا، ایک اعتماد تھا ایک سوچ تھی۔" یہی کوئی چھ گھنٹے"  یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔لیکن ایک دم پلٹی اور بولی آ پ اس دوران یہیں رہیں گے؟
 ہاں ، پروفیسر صاحب کو سیکریٹیر یٹ کا م ہے اس لئے انہوں نے شام تک یہاں ٹھہرنے کیلئے میری ذمہ داری لگائی ہے، اور وہ ’ہوں‘ کہ کر کمرے سے نکل گئی۔
وہ صحرا میں تپتی دھوپ کا بادل تھی یا کسی مہیب غار کا رستہ۔ وہ جستجو کے سفر کا ایک قدم تھی یا بند دریچوں کا اکلوتا روزن۔ میں دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ آنٹی گہری نیند میں جا چکی تھیں کیونکہ ان کے خراٹوں کی آواز اب سنائی دے رہی تھی۔ اور میں اخبار  نکال کر اس میں محو ہو گیاجب آنٹی نے الٹی کے لئے زور لگایا تو میں ایک دم گھبرا گیا اور بھاگ کر نرسنگ کائونٹر پر اطلاع دی اور اگلے لمحے گل ناز وہاں موجود تھی، نبض دیکھی اور بلڈ پریشر چیک کیا اور کچھ انجکشن نکال کر لگا ئے اور وہیں بیٹھ کر طبیعت کے سنبھلنے کا انتظار کرنے لگی۔
گھر کتنے عرصے بعد جانا ہوتا ہے میں نے گفتگو جاری رکھنے کی کوشش کی۔
 یہی کوئی ایک ماہ بعد ، اکثر تنخواہ ملنے کے بعد۔لیکن کئی بار دو دو ماہ بھی نہیں جا ہوتا۔ اب کی بار اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ اعتماد اور بات کو جاری رکھنے میں دلچسپی کا میلان بھی نظر آیا۔
 بڑی ہونے کے نا طے گھر میں تو ہیڈ مسٹرس والی سختی چلتی ہوگی؟
 اس نے چہرے پر بے اختیا ر امڈآنے والی ہنسی کو  دبایا تو میرے بھی چہرے پر دبیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ کھلتی تو بہار آجاتی ، وہ چاندنی کی ٹھنڈک تھی۔ کسی دیے کا ڈبڈبا تا شعلہ ۔اس کی آنکھوں میں بلا کی گویائی تھی۔ چہرے پر مسکراتی دھنک کے رنگ ، ہونٹوں پر کسی معصوم بچے کی مسکراہٹ کا ترنگ ۔
 کیا روزانہ یہاں تک ٹیکسی پر آتی ہو؟ میں نے پوچھا۔ 
نہیں ، ہوسٹل سے بس پر بیٹھ کر مسلم ٹاؤن موڑ والے سٹاپ پر اتر جاتی ہوں اور وہاں سے پیدل ہسپتال تک مارچ کرتی ہوں اور ایسے ہی شام کو روانگی ہوتی ہے۔ ۔ اس نے ایک ہی سانس میں ساری تمہید یوں باندھی کہ کہیں میں سفر پر کوئی اور سوال نہ کر ڈالوں۔
’’ مشکل تو ہوتا ہو گا ، روزانہ کا آنا جانا‘‘۔ میں نے ہمدردی کی تو بولی
’’ ایک ماہ کی تو بات ہے، ابھی تو بہت مزہ آرہا ہے کام بھی کم ہے ‘‘۔ اس کی بات سن کر میں مسکرایا اور کہا تو اگرسہل طبیعت کی عادت پر گئی تو ؟
 اس نے کوئی جواب نہ دیا اور بلڈ پریشر چیک کر کے دوبارہ چلی گئی۔
 آنٹی دوبارہ نیند میں چلی گئیں اور میں کچھ دیر دوائیوں سے پمفلٹ نکال کر اپنی پتھالوجی کو آزماتا رہا اور چائے کی غرض سے کینٹین آگیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر گھوم کر دوبارہ کمرے میں آگیا ۔
ؔخاموشی دیواروں سے لگی تھی ۔ ایک سناٹا تھا ،ایک سکون تھا۔ میں ڈرپ سیٹ میں گرتے قطروں کو گنتا گنتا سو گیا ۔دروازہ کھلنے کی آواز نے مجھے بیدار کیا تو گل ناز بلڈ پریشر چیک کر رہی تھی اور ڈرپ آدھی سے زیادہ ختم ہو چکی تھی۔ آنٹی جاگ رہی تھیں اور میرے پو چھنے پر کوئی مسئلہ تو نہیں ، کمزور سی آواز میں بولیں نہیں۔ اب متلی والی کیفیت بھی کچھ سنبھل گئی ہے۔ جسم میں بہت درد ہو رہا ہے۔
 میرے جواب دینے پہلے وہ بولی ابھی میں نے درد کیلئے انجکشن نہیں لگایا ۔ابھی لگائے دیتی ہوں ۔
 آپ کے ایگز یمز کب شروع ہو رہے ہیں ؟‘‘۔ پہلی بار اس نے میرے بارے میں پوچھا۔
 اگلے ماہ کی انیس تاریخ سے۔
 کون سے شعبے سے دلچسپی ہے ؟ اس نے مزید کریدا تو اس کے پوچھنے کا انداز مجھے بہت اچھا لگا
جیسے آفتاب سمٹ کر کرہ ارض کی آغوش میں آکر اس چھوٹے سے کمرے میں چھپ رہا ہو۔جیسے کوئی باکمال ہستی اپنا لافانی گیت گنگنا رہی ہو۔پانی کی لہریں پتھروں سے ٹکراتی، شور مچاتی ساز بجا رہی ہوں۔ ابھی تو اس بارے میں کچھ نہیں سوچا۔ فی ا لحال تو صرف پیپروں کی فکر ہے ۔ ۔ 
اس کے بیٹھنے کے انداز سے مجھے یوں لگا جیسے وہ بھی میری طرح اس گفتگو کو جاری رکھنا چاہ رہی ہے۔ گھر والوں کا رویہ تمہارے بارے میں کیسا ہے؟
 میرے سوال نے یکدم اس کے چہرے پر ایک کرب سمو دیا۔ دریا کے آگے لگے سارے بند ٹوٹ گئے۔تند موجوں کے مقابل پل ایک دم بہہ گیا۔ تناور درخت جو کتنی دیر سے آندھیوں کے آگے کھڑے تھے، اپنی جڑوں سمیت اکھڑ گئے۔بے بسی، بے کسی، نا امیدی کی ایک یلغار تھی جس نے میرے سارے جسم کو ، میری ساری روح کو ہلا کر رکھ دیا۔
وہی جو دبئی گئے شخص سے اس کے گھر والوں کا ہوتا ہے۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کا انتظار اور بس۔ انہیں اس سے کیا غرض؟ ، میں تندرست ہوں یا بیمار ، خوش ہوں یا اداس، میری حسرتیں کیا ہیں ؟ میری چاہتیں کیا ہیں ؟ میرے بھی کچھ خواب ہیں ، میرے بھی کچھ سپنے ہیں ، میں بھی دل رکھتی ہوں ، میری بھی کوئی آرزوئیں ہیں میں بھی جذبات کی خریدار ہوں۔ شعور و خرد کی طمع مجھے بھی ہے۔یہ نفسانی خواہشیں نہیں ہیں ۔انسان آخر انسان ہے ۔ اس کی ایک فطرت ہے۔وہ فطرت جو کہیں نہ کہیں بیدار ہوتی ہے ، شعور کو مغلوب کرتی ہے ۔ یہ ۔۔۔۔۔ 
وہ بولے جا رہی تھی اور ہاتھ سے اپنے بازو پر چڑھے کنگن کو انگلیوں سے گھمائے جا رہی تھی۔۔ بات کرتے کرتے وہ ایک دم گھبرا گئی جیسے سر بازار اسنے خود کو برہنہ کر دیا ہو۔ اپنی بات نامکمل چھوڑتے ہوئے تیزی سے اٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔ میں اس ساری ساری صورتحال کو ناسمجھتے ہوئے آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ بے خبر سو رہی تھیں ۔میں بے یقینی کی کیفیت میں  ہراساں ہورہا تھا۔۔ تھوڑی دیر میں پروفیسر صاحب بھی آگئے اور ڈرپ بھی ختم ہو گئی ۔
 وہ خاموشی سے کمرے میں آئی ۔ ڈرپ ہٹائی، بلڈ پریشر چیک کیا، ایک انجکشن لگا کر ، برینولہ نکال دیا اور جتنی خاموشی سے آئی، اتنی خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں نے ان نیم جان آنکھوں میں ایک بار جھانک کر روشنی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس وقت صرف اندھیروں کے  سواکچھ دکھائی نہ دیا۔ پروفیسر صاحب کو ٹیکسی میں سوار کراکے میں پیدل ہی مسلم ٹاؤن موڑ کی جانب روانہ ہو گیا۔ 
 اتنے سالوں بعد کل شام جب پیڈیاٹرک وارڈ سے نکل کر جناح ہسپتال کے آؤٹ ڈور والے حصے سے گزرا تو اسے دیکھ کر قدموں کو روک لیا۔اتنے سالوں میں اس پر کیا بیتی میں نہیں جانتا لیکن اس خزاں لئے زرد چہرے کو دیکھ کر صدیوں سے سہے جانے والے دکھوں کے بوجھ کا اندازہ ضرور ہوتا تھا۔ میں گومگو  کیفیت میں اس کے پیچھے تو گیا لیکن پھر وہاں سے ایمرجنسی کو جانے والی سڑک پر چلنے لگا۔۔
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment