Tuesday, February 12, 2013

ویلنٹائن ڈے منانے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔۔۔

پچھلے چند سالوں میں وطن عزیز کی فضا ئیں دہشت گردی سے ہراساں اور پراگندہ ہیں۔، مہنگائی ، سیاسی بے یقینی اور عدم ستحکام کے بعد ہماری پوری قوم ایک گھٹن کا شکار ہے۔اور ہر اس موقعہ کو جس سے تازگی اور خوشی کا احساس ہو ، اپنانے کیلئے فوراً تیار ہوجاتی ہے۔ وہ خواہ کرکٹ میچ ہو یا کوئی میٹرو بس سروس کا آغاز کا افتتاح، نئے سال کی تقاریب ہوں یا عید کی خوشیاں ، وہ ان دنوں کو لیکر مسرت اور شادمانی کے اپنے اظہار کیلئے ہر دم تیار نظر آتے ہیں۔ ان ہی دنوں میں ایک دن چودہ فروری کا ہے جس کو منانے کیلئے نوجوان طبقہ خصوصی طور پر بے چین نظر آتا ہے لیکن دلوں میں شگوفے ہر عمر کے لوگوں میں پھوٹتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے جس طرح اس دن کی تشہیر ہو رہی ہے اس کے بعد یہ دن ایک باقاعدہ تہوار کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس نے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہاتوں کا بھی رخ کر لیا ہے ۔محبت کے لئے مختص اس دن کی تیاریاں مہینے کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ اب اگر حبس زدہ ماحول سے نکلنے کے لئے بے چین یہ نوجوان نسل اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے اس دن کو استعمال کرنے کوشش کرتے ہیں تو محبت کے اس مقدس جذبے میں مذہبی رنگ ڈال کر سارے مزے کو خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بھلا اسلام نے خوشیاں منانے پر کب پابندیاں لگائی ہیں او ر یہ تو خالص ذاتی معاملہ ہوتا ہے جس کا مذہب سے کیا تعلق؟ کیا اسلام نے اولمپک میں شرکت پر پابندی لگائی ہے؟۔ کیا کرکٹ کھیلنے یا ہاکی کھیلنے سے پہلے کسی ملا سے فتوی لینا پڑے گا؟ ہارس اینڈ کیٹل شو اور اور بسنت کو مذہبی رنگ دینے سے کیا بہار کی آمد رک جائے گی؟ سرخ پھول دینے سے یا کارڈ بھیجنے پر زنا کے فتوے کس طرح جائز ہیں؟ ایسے ہی بے شمار دلائل ہیں جو ویلنٹائن ڈے منانے کے حق میں دیئے جاتے ہیں۔ اور بادی النظر میں یہ دلائل اس دن کو منانے کے لئے کافی ہیں۔ نہ تو مجھے اس دن کو منانے پر اعتراض ہے اور نہ ہی میں دنیاوی دلائل سے اس کی حرمت کا قا ئل ہوں ۔ چونکہ یہ ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتا، چونکہ یہ دن مغربی تہذیب کی پیدوار ہے، چونکہ اس سے نوجوان بے راہروی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے کتنے ہی بے ضرر دلائل ہیں جن سے اس دن کو منانا غلط ثابت کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دن منانے سے پہلے چند باتوں کو نظر انداز مت کریں ۔ جنسِ مخالف کیلئے کشش، اس کی طرف میلان اور اس کے لئے دل میں نرم پہلو رکھنا انسانی جبلت ہی نہیں بلکہ اس کائنات کی شائد سب سے بڑی اور واضح حقیقت بھی ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جو لطف اور مزہ جنس مخالف کی صحبت میں ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔لیکن زندگی گزارنے کے ڈھنگ فطرت یا جبلت کے تابع نہیں ہوتے بلکہ ان قوائد وضوابط کے تحت ہوتے ہیں جو اس کے خالق نے متعین کئے ہیں۔انسان اور حیوان کے درمیان فرق پیدا کر کے اگر حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز کیا جاتا ہے تو وہ یہی اصول اور قوائد و ضوابط ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے جاندروں سے جدا گانہ حیثیت اختیار کرتا ہے۔اگر ہم اسلام کو مکمل ضابطہ حیات مانتے ہیں اور اسلام کی حقانیت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر اپنی خوشیاں منانے سے پہلے، تہوار وں کا اہتمام کرنے سے پہلے،کسی جشن کا حصہ بننے سے پہلے، کسی فنکشن میں جانے سے پہلے، اس بات کا علم ضرور حاصل کر لیں کہ ہمارے رب کی اس بارے میں کیا خواہش ہے؟۔ غموں کی نوبت آئے تو ذہن میں پہلا خیال یہ آنا چاہئے کہ جب ہمارے محبوب ﷺ پر غم ٹوٹتے تھے تو وہ کیسے اس کا سامنے کرتے تھے ؟ ۔ کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعین کرنے کا حق صرف اور صرف اسی ذات کو ہے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے اور وہ احکام جس مقدس ہستی کے ہاتھوں ہم تک پہنچے اس کو سرور کائنات ﷺ کہا جاتا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے ، اس کے ماں باپ،بہن بھائی، اولاد ، اسکی اپنی جان اور کائنات کی ہر چیز سے زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں۔ کوئی بھی دین یا مذہب جب پابندیاں لگاتا ہے تو اسکا مطلب لوگوں کو تنگ کرنا یا تکلیف پہنچانا نہیں ہوتا۔ بلکہ معاشرے میں اس ڈسپلن کو قائم کرنا ہوتا ہے جو کہ اس کی بقا کیلئے ضروری ہے ۔ وہی ڈسپلن جو سڑکوں کے چوڑاھے پر ٹریفک سگنل کی ذریعے پیدا کیا جاتا ہے۔جو آپ پر ناگوار تو ضرور گزرتا ہے لیکن ٹریفک کو رواں رکھنے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ ایک دن نبی اکرم ﷺ صحابہ کے ساتھ تھے آپ نے ایک چھڑی کی مدد سے ایک لکیر زمین پر کھینچی اور پھر دو لکیریں اس کے ساتھ مزید کھینچیں اور کہا یہ درمیان والی لکیر صراط مستقیم ہے اور ساتھ والی لکیر یں شیطان کا رستہ ہے اور جو شخص صراط مستقیم والی لکیر سے ہٹتا ہے شیطان اس اچک کر دور لے جاتا ہے۔ اور صراط مستقیم سے بھٹکا ہوا ہر قدم ہمیں شیطان کے ہاتھوں ہمارے اصلی رستے سے بہکا کر اتنا دور لے جاتا ہے کہ ہم گمراہی کے صحرا میں نخلستان ڈھونڈنے کے چکر میں بار بار سراب کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔انبی اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جس نے کسی قوم کی شباہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ اس رسم کی جو بھی حقیقت ہو ، جو بھی پس منظر ہو ۔ ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ یہ رسم ہم تک کہاں سے پہنچی ہے۔ اگر ہم اس دن کو منائیں گے تو ہمارا شمار یقیناًیہود و نصاری سے ہو گا۔ہمارا اس دن کو منانے کیلئے بڑھنے والا ہر قدم اللہ کے رسولﷺ کی نافرمانی پر ہوگا۔ نکاح سے پہلے ایسے دن منانا،دراصل حیا کا جنازہ اٹھانے کے مترادف ہے۔ وہ حیا جس کے بارے میں صحیح مسلم میں مروی ہے کہ ہر دین کی ایک پہچان ہے اور دین اسلام کی پہچان حیا ہے۔ بخاری میں ایک اور حدیث میں مروی ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔جس دین کی پہچان ہی حیا ہو تو اس دین میں بے حیائی کے کاموں کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو سرخ پھول دینے میں کوئی قباحت نظر نہ آتی ہو۔ لیکن مرد وخواتین کے اختلاط کی ممانعت سے وہ یقیناً بے خبر نہیں ہونگے کیونکہ سورۃ احزاب میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’عورتوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں‘‘ اور سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے ’’ اے نبی ﷺ اپنے مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظروں کو نیچا رکھیں‘‘ کیا ان آیتوں کے بعد کھلم کھلا رومانوی جملے ادا کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے؟ حیا کا تقاضا ہے کہ ہر اس رستے کو بند کیا جائے جو برائی کی طرف لے کر جاتا ہو۔ اور۔ وہ حیا جس کی عدم موجودگی میں و ہ فطری جھجک ختم ہوجاتی ہے جو ہر شخص کی جبلت میں ہے ، وہ حیا جو معصومیت کی ضامن ہے، وہ حیا جو انبیا کا شیوہ ہے۔ وہ حیا جس کو قرآن نے بار بار پرہیز گار مردوں اور عورتوں کا وصف قرار دیا ہے۔وہ حیا جو فرشتوں کی خوبیوں میں سے ہے ، وہ حیا جسے رب نے اپنے لئے پسند کیا ہے ۔ وہ حیا جس کی حفاظت نہ کی جائے تو زنا کو جانے والے تمام رستے کھل جاتے ہیں۔ وہ آنکھ کا ہو، کان کا ہو یا ہاتھ کا، وہ زنا ہی ہے جس سے بچنے کا سخت حکم ہے۔ حیا سے اعراض کرنے والے کے بارے میں اللہ کے نبیﷺ نے یوں لاتعلقی فرمائی ہے ’’جب تم حیا نہ کرو تو ، جو تمہارا جی چاہے کرو‘ ‘ تو کیا ایک حیا سوز دن منانے کی خاطر ہم کائنات کے سب سے پیارے شخص کی ناراضگی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

No comments:

Post a Comment