Saturday, March 2, 2013

تفریق


ملک نعیم میرا سابق محلے دار بھی ہے اور عمر کے خاصے فرق کے باوجودکسی حد تک دوستوں کی صف میں بھی شامل ہے۔ جب ہم اپنے آبائی محلے فاضل دیوان میں رہتے تھے تو ان دنوں وہ ہمارے ساتھ والی گلی میں رہتےتھے۔لیکن محلے دار ہونے کے باوجود میری اس سے پہلی باقاعدہ ملاقات لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں ہوئی تھی جہاں وہ اپنے کسی دوست کے ساتھ کھانا کھانے آئے تھے۔کیمپس کی اپنی یادوں کو دہراتے ہوئے وہ اچھا خاصا جذباتی ہو گئے تھے۔ لیکن جس چیز نے ہمارے درمیان دوستی کی بنیاد رکھی وہ ان کا چائے کے ساتھ رکھ رکھاؤ تھا۔کھانے کے بعد  چائے پینے سے انکار کردیا کہ یہاں جو چائے پیش کی جاتی ہے وہ چائے کے نام پر ایک دھبا ہے۔ صبح سے آگ پر رکھے برتن میں دودھ ڈال کر پرانی پتی کو بار بار کھولنے کے بعد اسے چائے کا نام دینا صرف زیادتی ہی نہیں بلکہ ناقابل تلافی جرم بھی ہے۔امجھے  سے پوچھا کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو ایک کپ چائے پیتے ہیں ۔ میرے ہامی بھرنے پر وہ ہمیں نیو کیمپس سے انارکلی لے گئے اور پاک ٹی ہاؤس سے میراپہلی بار تعارف ہوا۔ اور جو مزا چا ئے پینے کا اس کےرومانوی ماحول میں آیا اور جو اثر وہاں چائے پیش کرنے کے انداز نے دیا ، اس نے جہاں پاک ٹی ہاؤس سے ایک مستقل تعلق قائم کر دیا وہاں ملک نعیم سے بھی دوستی کاایک رشتہ پیدا کردیا۔جب پہلی بار برڈ فلو نے پولٹری کی صنعت کو متاثر کیا تو ان دنوں ملک نعیم کھدر کا کام کر رہا تھا۔گھر کے قریب ہی کچھ کھڈیاں لگا رکھی تھیں ۔ لیکن شہر میں ڈائینگ کا میعار بہتر نہ ہونے کی وجہ سے کپڑا ملتان بھیجنا پڑتا تھا۔ اور واپسی پر کپڑے کی لاگت میں اتنا اضافہ ہو جاتا تھا کہ کاروبار کو جاری رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔اور جونہی برڈ فلو نے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لیا۔  ملک نعیم نے اپنی کھڈیاں بیچ کر ساری رقم پولٹری کی صنعت میں لگا دی۔جب لوگوں نے اس سے اس حماقت کی وجہ پوچھی تو تو اس کی لاجک میں بڑا وزن تھا ۔ سولہ ارب کی آبادی نے کہاں سے کھانا ہے؟ یہ آج ڈری ہے لیکن کل جب کھانے کو کچھ نہیں ملے گا تو یہ برڈ فلو زدہ مرغیاں تو کیا کوے بھی کھانے لگی گی۔ اور اس کے اس نازک لمحے میں کئے گئے فیصلے نے اسے کروڑ پتی نہیں تو ایک متمول انسان میں ضرور بنا دیا تھا۔ چائے کے بہانے شروع ہونے والی ملاقاتیں ہمارے درمیان اکثر بحث و مباحثے میں تبدیل ہوجاتی تھیں ۔ ملک نعیم کے دلائل میں تجربے کا وزن ہوتا تھا۔اور میں اپنے اخبار بینی کے شوق سے سے مدد لیتا۔ ایک دن جب کیمپس کے پل سے گزرتے ہوئے ایک سنگترے بیچنے والے کے پاس رکے تو اس سے بھاؤ پر بحث شروع کر دی ۔مجھ سے رہا نہیں گیا۔میں نے کہا ملک صاحب کبھی آپ نے ان بڑے بڑے برانڈ کی دکانوں پر جا کر بھی بحث کی ہے؟۔یہ جو آپ نے پولو کی شرٹ پہن رکھی ہے اور جو مارک اینڈ سپنسر کی ٹائی لگا رکھی ہے اور ان کا کوٹ پہن رکھا ہے۔ ان پر کتنی ڈسکاؤنٹ کروائی تھی؟۔ اور جب آپ نے یہ کرولا خریدی تھی تو اس کی قیمت کم کروانے کیلئے کتنی بحث کی تھی؟۔ جنہوں نے تو ایمپائرز کھڑی کرنی ہوتی ہیں ۔ اقتصادی حبس پیدا کرنا ہوتا ہے اور ان سے آپ رعائیت کروا نہیں سکتے اور جنہوں نے صرف اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنا ہو تا ہے اور اپنے گھر کا نظام چلانا ہوتا ہے ان سے آپ لاگت کا اندازہ لگا کر ایک ایک روپے کا حساب لے رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آپ سے کوئی ناجائز منافع لے بھی لیا تو کون سا پلازہ کھڑا کردیں گے۔ ملک صاحب نے تحمل سے میری بات سنی اور بولے یہ جو برانڈ ہوتا ہے یہ ایسے ہی وجود میں نہیں آجاتا۔ یہ کوالٹی اور معیار کا ضامن ہوتا ہے۔ اگر وہ اس کی قیمت لیتے ہیں تو وہ اس معیار کی سند فرہم کرنے کی لیتے ہیں جووہ اپنے صارف تک پہنچا رہے ہوتے ہیں۔جو کولٹی نائکی دیتی ہے وہ کوئی پاکستانی کمپنی کہاں دے سکتی ہے۔ جو معیار تھامس نیش کے گارمنٹس کا ہے وہ پاکستانی کپڑوں کا کہاں؟ جو سٹائل ورساچے، گوچی، ارمانی کے جوتوں کا ہے وہ ہمارے مقامی جوتوں میں کہاں۔ جو وقار راڈو، ٹائمکس، اور سواچ کی گھڑیوں کا ہے ، وہ کسی اور گھڑی میں کہاں؟اس دن مجھے ان کی شخصیت کے اس نئے پہلو کا اندازہ ہوا کہ وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سحر میں کس قدر گرفتار ہیں۔ اور گاہے بگاہے اپنی ملٹی نیشل اشیا کی نمائش کرتے رہتے۔ اور ان کی افادیت ، ان کی انفرادیت اور ان کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ،جہاں اپنے سٹیٹس کا اظہار کر جاتے وہاں ان کی باتوں سے اپنی اقدار سے لاتعلقی کا اظہار بھی ملتا۔ میرا نقطہ نظر ہمیشہ مختلف ہوتا اور اپنی رائے کو دلائل کے سہارے دیتا رہتا۔ اس معیار کو برقرار رکھنے کی جو قیمت صارف سے وصول کی جاتی ہے کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ کیا یہ سرمایہ درانہ نظام کا حصار نہیں ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ جب ہم تازہ دودھ بیس روپے لٹر لے کر پیتے تھے تو ہماری صحت بھی ٹھیک تھی اور بیماریاں بھی کم تھیں۔اور دھوکہ دھی کی عادتیں بھی۔اب ہمیں ڈبے کے دودھ کی عادت ڈال کر ہم سے وہی دودھ بیس روپے میں لیکر ساٹھ روپے میں بیچنے لگے ہیں۔ ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہے یا نہیں یہ اس کا محتاج بنا کر اس کا عادی بنا دیتی ہیں۔ اور پھر اس کی منہ مانگی قیمت لیتی ہیں۔ لیکن ملک صاحب میری بات سے زیادہ متاثر نظر نہیں آئے اور ریٹ طے کرکے کچھ پھل خرید لئے۔ ان کو ان برینڈ ز کی اصل قیمت دکھانے کیلئے علامہ اقبال ٹاؤن کی کریم بلاک میں واقع مارکیٹ بھی لیکر گیا ۔ اور ہنجروال میں واقع کپڑے کی مارکیٹ بھی دکھائی لیکن ان کوقائل نہ کرسکا۔ ہم نے کبھی اس نظر سے برانڈ کے شکنجے کو محسوس نہیں کیا ، جس کی ضرورت تھی۔ایک طرف اگر سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو سودی کاروبار میں جکڑ رکھا ہے تو دوسری طرف برانڈ کا طلسم پھونک کر لوگوں کو گرفتار کرکھا ہے جس نے نا صرف معاشرے میں ایک طبقاتی تفریق کی واضح لائن کھینچ رکھی ہے۔بلکہ وہاں مقابلے کی دوڑ میں شامل نئے کھلاڑیوں کی حو صلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ اس کا رستہ بھی روک رکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ امیر غریبوں پر حکومت کرتے تھے امیر غریبوں کا استحصال کرتے تھے لیکن برانڈ کے ذریئے جو طبقاتی تفریق پیدا کر دی گئی ہے وہ اس سے کہیں سنگین اور مہلک ہے اور اب  یہ استحصال اس طبقاتی تفریق سے کیا جاتا ہے جس نے ایک قسم کی طبقاتی جنگ پیدا کردی ہے لیکن یہ جنگ دوسرے کو شکست دینے کیلئے نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے ہے۔ وہی تفریق جو ہم نے اردو اور انگلش میڈیم سکولوں میں زبان اور کلچر کا کمپلکس رائج کر کے شروع کی تھی۔اور کوئی فریق اس جنگ سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ معاشرے میں ایک وسیع خلیج حائل ہوتی جا رہی ہے ۔ غیر فطری اور غیر منطقی تقسیم۔ خواہشات کا جزو ہمارے خون کا حصہ ہے ۔ ہم اس جزو کو اپنے آپ سے الگ نہیں کر سکتے لیکن برانڈ کے نام پر اس جڑی بوٹی کو ایک فصل کے طور پر اگایا جاتا ہے ۔ اور پھر اسے منہ مانگے داموں فروخت کر کے خواہشوں کے نئے انبار لگائے جاتے ہیں۔ جس طرح کریڈٹ کارڈ کے نام سے خواہشوں اور تمناؤں کو ہوا دی جاتی ہے اور جب راکھ میں دبی چنگاریاں شعلوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تو پھر اس آگ کوسارے معاشرے میں پھیلا دیا جاتاہے ایسے ہی برانڈ کے نام پر حسرتوں کو بھڑکایا جاتا ہے ۔تہذیبوں کے سودے کئے جاتے ہیں ۔بے مقصد جستجو ، لاحاصل جدوجہد۔ روح سے خالی ڈھانچے ۔ پھر ان کی ثقافت پر یلغار کرو یا ان کے مذہب پر۔ کسی کو اس بات کی کیا خبر ،کسی کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ بے خبری میں ہماری تہذیب ، ثقافت اور مذہبی اقدار میں کتنی دراڑیں پر چکی ہیں ۔معاشرے میں درجہ بندی دراصل مساوات کا قتل ہے ، انصاف کا قتل ہے۔انسانی جبلت میں خود غرضی داخل کرکے لا شعوری طور پر اسے ان دیکھی قوتوں کے اشارے پر ناچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ لیکن ملک صاحب میری کسی د لیل سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوتے تھے۔ وہ اپنی خودنمائی کا چلتا پھرتا احساس تھے و ہ اپنی ذات پر تو تنقید برداشت کر سکتے تھے لیکن نظریات کی قربانی نہیں دے سکتے تھے ۔ میں نے کلینک شروع کر دیا اور ملک صاحب اپنا کاروبار وسیع کرتے ہوئے پنڈی شفٹ ہو گئے اور اسلام آباد کے قریب کوئی ہیچریاں لگا لیں ۔ اور ہمارے درمیان مصروفیات نے وسیع خلیج حائل کر دی۔ پچھلے دنوں اتفاق سے میرا پنڈی جانا ہوا تو سوچا ملک صاحب سے بھی شرف ملاقات حاصل کر لوں ۔ جب ان کے دفتر پہنچا تو ان کو کھدر کے لباس میں دیکھ کر خوشگوار دھچکہ پہنچا۔ بڑے خلوص سے ملے ۔ جب اپنے ملازم کو چائے لانے کا کہہ چکے تو میں نے ملک صاحب سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی تو مسکرا دئے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کی کوئی دلیل تو مجھے اس سرمایہ دارانہ نظام کے اس چہرے  سے بد ظن نہیں کر سکی لیکن جس دن میں اپنے ابا کیلئے کفن لینے گیا تھا تو اس دن مجھے احساس ہوا کہ لباس تو سب نے یہی پہننا ہے۔ لیکن اس کیلئے برانڈ کی کیا ضرورت ہے؟
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment