Sunday, March 17, 2013

میٹھے بول

میاں مشتاق کو میں کافی عرصے سے جانتا ہوں ۔ کتابوں سے محبت جنون کی حد تک ان پر سواررہتی ہے۔اور شائد یہی بات ہم میں مشترک ہے۔ورنہ عادات و اطوار سے لیکر دوسرے مشاغل تک کوئی بات ایسی نہیں جس پر ہم نے کبھی اتفاق کیا ہو۔ سوچ کا یہی فرق اکثر ہمیں بحث کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ نا تو میں ان کو کبھی قائل کر سکا ہوں اور نہ ہی وہ میری کسی رائے سے کبھی متفق ہوئے ہیں۔ وہ یقین اور اعتماد کے کسی دوسرے کنارے پر آباد نظر آتے ہیں جہاں تک میری رسائی نہیں ہے یاشائد میں جان بوجھ کر اسے نظر انداز کرتا ہوں ۔مغرب زدہ ہیں۔ او ر وہ بھی اس حد تک کہ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ اسے پاکستان میں پیدا ہونے پر بھی اعتراض ہے۔مغربی ترقی اور کلچر کا ذکر اتنے جذباتی انداز میں کرتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے وہ  نماز بھی یورپ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہونگے۔اکثر لوگوں کو تو ان کی ذات سے اس قدر نفرت ہے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے انگریز خود تو چلا گیا ہے لیکن جب وہ ہندستان چھوڑ رہے تھے تو غلطی سے میاں صاحب کو ساتھ لیجانا بھول گئے تھے۔ان کی باتوں سے چڑ تو مجھے بھی بہت ہوتی ہے لیکن ان سے بہت سی نایاب کتب پڑھنے کو مل جاتی ہیں اس لئے ہمیشہ ان کی باتوں کو برداشت کرتا چلا آیا ہوں لیکن کل تو حد ہوگئی ۔ جب انہوں نے ڈیل کانیگی کی کتاب ’میٹھے بول میں جادو ہے ‘ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا ذرا ایک بار اس کو پڑھ کر دیکھیں کہ دانشور کس کو کہتے ہیں، جن کو تم طنز سے فرنگی بولتے ہو ،زندگی گزارنے کیلئے کیسی سنہری باتیں کی ہیں اس کتاب میں۔یہ جو تم اپنے اکابرین کی باتیں کرتے رہتے ہو، کبھی کسی نے ایسی پیاری اور میٹھی باتیں بتائی ہیں ؟ کسی نے؟ بولو ؟ جواب دو ؟ ۔ کیا کسی مسلمان مصنف نے ایسے فکر انگیز نقاط اٹھائیں ہیں؟ چونکہ میں یہ کتاب پڑھ چکا تھا اور اس کے مفہوم کو بھی اچھی طرح جانتا تھا، اس لئے میں اس کی باتوں سے قطعی طور پر متاثر نہیں ہوا۔ میں اس سے بھی پہلے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بہت سی کتابیں پڑھ چکا تھا اسلئے ا س کتاب کا غیر جانبرانہ تجزیہ کرنے کے باوجود نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی کھلی کتاب نے مجھے کہیں زیا دہ متاثر کیا تھا۔ سیرت طیبہ کو محض علم میں اضافہ کی بجائے اگر اس پر عمل کے ارادے سے پڑھیں تو ایسے ایسے گوہر دریافت ہونگے کہ سنہرے موتیوں کے انبار لگ جائیں۔ وہ جس کی باتیں جادو ہیں، جو ذہن اور جسم پر طلسم جاری کردیتی ہیں۔روح میں ہیجان اور بدن میں ایک تبدیلی رونما کر دیتی ہیں ۔ جس کے بارے میں دشمن بھی اقرار کرتا ہو کہ ہم نے کبھی اس کے منہ سے جھوٹ نہیں سنا اور صادق اور امین کے لقب سے جانتے ہوں۔کیا کسی نے اس سے زیادہ میٹھی باتیں بھی کی ہونگی ؟جو یہ کہتا ہو، جب شوربہ بناؤ تو تھوڑا ساپانی زیادہ ہ ڈال لو تاکہ ہمسائے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے، جو اگر کوئی دشمن بھی بیمار پڑجاتا ہو تو اس کی تیمارداری کے لئے پہنچ جاتا تھا ۔ دینے پر آیا تومانگنے پر جانوروں کا پورا ریوڑ عطا کر دیا، معاف کرنے پر آیا تو اپنے بد ترین دشمن کو بھی معاف کردیا، بات سنتے تو اتنے دھیان سے سے کہ دوسرا یہی سمجھتا میں ہی سب سے اہم ہوں، مسجد میں پیشاب کرنے والے شخص کو مارنے کیلئے لوگ دوڑتے ہیں تو ان کو روک دیتے ہیں ، خود اپنے ہاتھ سے جگہ صاف کرکے ا سے سمجھاتے ہیں، ا ن کے طرز تکلم پر لکھنا چاہوں تو کتابیں لکھ دوں تو بھی ان تمام پہلووں کی نشاندہی نہیں کر سکتا جس کے وہ مالک تھے ، جن کے بارے میں کوئی دعوی نہیں کر سکتا ہے کہ انہوں نے کسی کو مارا ہے، کسی کو جھڑکا ہے، یا کسی کو گالی دی ہے، جو راستوں پر رکاوٹ کھڑی کرنے سے روکتا ہو،دوسروں کی آبرو کو زبان کی قینچی سے کاٹنے سے روکتا ہو، جو ہستی آپ کو بتاتی ہو کہ مومن نہیں ہوتا وہ شخص جو طعنہ دینے والا ہو اور بے ہودہ بات کرنے والا ہو ۔ہمسائے کو ایذا دینے والا ہو ،دوسروں پر رحم نہ کھانے والا ہو۔جو یہ کہتا ہو تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلی ہے۔ جو معاشرے سے فساد ختم کرنے کیلئے بتاتا ہو،جنت میں شریر انسان اور چغل خور داخل نہیں ہو پائے گا،پہلوان تو وہ ہے جو غصے میں اپنے اوپر قابو رکھ سکے،بدگمانی سے بچو، کھوج نہ لگاؤ، عیب نہ ڈ ھونڈو، حسد نہ کروبغض نہ رکھو، عداوت نہ کرو۔جس کو معاشرے کی عزت اور آبرو کا اس قدر بھرم ہو کہ وہ حکم دیتا ہوبے حیائی سے بچو، حیا کو قائم رکھو،دوسروں کے عیب چھپا کر رکھو، جو خود سلیم الفطرت ہو اور کہتا ہو ا نکسار پسند جنت میں جائے گا،تین دن سے زائد کوئی کسی سے ناراضگی جاری نہ رکھے ، جو اخوت کا جذبہ یہ کہہ کر بیدار کرتا ہو ، ، جب بھی ملو سلام میں پہل کرو،کسی کا مرض پتا چلے، عیادت کو پہنچو، کسی کے جنازہ کا علم ہوجائے تو پیچھے نہ رہو، جو محبت بڑھانے کے بہانے ڈھونڈ کر دیتا ہو کوئی دعوت کرے تو انکار نہ کرو،کھانا کھلاؤ جسے جانتے ہو یا نہیں، جو غلط فہمیوں کو بھگاتا ہو،جب مل کر بیٹھتے ہو تو سرگوشیوں میں بات نہ کرو، جو ہر شخص کو یہ کہہ کر ذمہ داری سونپتا ہو دوسروں کی اصلاح میں پیچھے نہ رہو، جھگڑالو شخص قابل نفرت ہے،کاہلی ، بزدلی اور کنجوسی مومن کی شان نہیں ہے،کسی کی شخصیت کے جادو کی گواہی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ جس کے بارے میں لوگ کہتے ہوں معاملات طے کرنے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم  سے آسان شخص ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔
میں اکثر سوچتا ہوں ۔ کچھ نازک لمحوں میں ہم اگر اپنی زبان اور اپنے رویوں پر قابو رکھیں تو بہت سے معاملات ناصرف با آسانی حل ہوسکتے ہیں بلکہ محبت اور یگانگی کی ایک نا ختم ہونے والی فضا بھی قائم ہوجاتی ہے۔ اگرہماری گاڑی کے ساتھ کوئی سائیکل والا ٹکرا گیا ہے تو گالی گلوچ سے کام لینے سے کیا ہمارا نقصان واپس ہوجائے گا؟ ۔ کیا راہ میں چلتے ریڑھی والا اگر مجھے کو ئی رستہ نہ دے رہا ہو تو اس کے اوپر لعن طعن کرنے کی بجائے کچھ سیکنڈ انتظار کر لینا بہتر نہیں ہوگا ؟ میرا ملازم اگر کوئی قیمتی چیز توڑ دیتا ہے تو کیا ہم اسے شائستہ لہجے میں اس کی غلطی کا احساس دلا نہیں سکتے ، کیامیری بدزبانی نقصان پورا کر دے گی؟ محبت اور پیار کو خرید نا کون سا مشکل کام ہے۔ دستر خوان پر کوئی صاحب پانی مانگے تو اس کے آگے جگ بڑھانے کی بجائے ، گلاس میں ڈال کر دینے سے میرے کھانے میں کتنے دیر کی رکاوٹ آتی ہے؟ ۔ سب کے سامنے میز سے گری چیز کو اٹھا کر اپنے ہاتھ سے واپس رکھنے میں پہل کرنے میں کون سی قباحت آجائے گی۔ جب کسی سے بات کریں تو چہرے پر تھوڑی سی مسکراہٹ سجا لینے میں کوئی خرچ نہیں آتا۔ مسجد کے دروازے سے نکلتے وقت دوسروں کو پہلے گزرنے کی دعوت دینے سے وقت کا ضیاع کتنا ہوگا؟ دکا ن پر کھڑے ہو کر پہلے سے آئے گاہکوں کو اپنی خریداری مکمل کر لینے کا موقع دینے سے زیادہ وقت نہیں لگے گا۔اس میں کوئی حرج ہے ؟ کہ دوسروں کی بات سنتے ہوئے اپنے انداز میں یوں تبدیلی لے آئیں کہ اسے محسوس ہو آپ اس کی بات توجہ سے سن رہے ہیں۔ کسی کو بھی مخاطب کرتے وقت آپ اور جناب کا استعمال کرنا۔خواہ وہ مزدور ہو یا کوئی مزارع۔ کیا انسانیت کو احترام اور وقار کا درجہ دینے سے میری عزت میں کمی آجائے گی؟ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر دینے سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ راہ چلتے شخص سے سلام لینے کی بجائے رک کر مصافہ کرنا یا معانقہ کرنا اور چند لمحوں کیلئے اس کی صحت اور گھر والوں کی خیریت کے بارے میں استفسار کرنا، نماز سے واپسی پر کسی بیمار کے گھر کے باہر سے گزرتے وقت چند لمحوں کیلئے رک کر حال چال پوچھنا۔ کسی کو بھی صلہ میں دعاؤں سے نوازنا، کسی کے ہنر یا فن کی تعریف کرنا وہ کوئی مستری بھی ہو سکتا ہے، کوئی بڑھئی بھی،کوئی دیوروں پر قلعی کرنے والا بھی اور کوئی گوشت کاٹنے والا قصائی بھی۔ کبھی بیٹھ کر گنتی کریں توان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہم کتنے دلوں کو جیت سکتے ہیں۔ کبھی صبح سویرے سڑک پر جھاڑو پھیڑتے بھنگی کے جھاڑو کو چلانے کے ہنر کو محسوس کیا ہے؟ کبھی سائیکل پر مچھلیاں بیچتے شخص کو مخصوس ٹوکے کی مدد سے اسکے ٹکڑے کرتے دیکھا ہے؟ کبھی کسی دھی بھلے یا چاٹ کی ریڑھی پر کھڑے شخص کے ہاتھوں کو چلتا ہوا دیکھا ہے؟ ۔کبھی کسی تنور پر روٹیاں پکاتے آدمی کو تنور میں روٹیاں ڈالتے دیکھا ہے؟۔ رنگ ساز کے کپڑوں کو رنگ دینے کے ہنر کو دیکھا ہے؟۔ کدال سے سڑک کو چیڑتے مزدور کے بازوؤں کی شان کو دیکھا ہے؟ ۔کیا کوئی شاعری محسو س کی ہے ۔؟ کیا اس کے فن کو تسلیم کیا ہے۔ تو کیا ہرج ہے دو الفاظ ہم ان کے سامنے ان کے ہنر کے بارے میں بول دیں۔ کیا حرج ہے ؟ اگر ہم ان کے ہنر کو ان کے سامنے تسلیم کرلیں۔ کیا حرج ہے اگر ہم ان کے ہنر کو وہی عزت دے دیں گے جو ہم کسی کاروباری شخص کو، کسی ڈاکٹر کو یا کسی مسند پرا پراجمان شخص کو دیتے ہیں ۔ جب ہم یہ باتیں محسوس کرنا سیکھ جائیں گے تو ہمارے بول خود ہی میٹھے ہوجائیں گے ۔ جس کی شیرینی کو کو سبھی محسوس کریں گے ۔بات تو شائد ٹھیک ہے لیکن بات تو سمجھنے کی ہے ، اور بات تو ان پر عمل کرنے کی ہے۔ آپ کے دو میٹھے بول ، آپ کے دو  قدم اگر آپ کی عزت میں اضافہ کریں گے تو وہیں پر اسلام کی سلامتی کی شناخت کو جواز بھی فراہم کریں گے

No comments:

Post a Comment