Tuesday, March 19, 2013

برداشت


یہ بارہ ربیع الاول سے چند دن پہلے کی بات ہے جب مجھے بچوں کیلئے خریداری کے لئے فیصل آباد جانا پڑا تھا۔شہر میں داخل ہوا ہوں تو مجھ سے کچھ آگے لکڑیوں سے لدی ایک ریڑھی جا رہی تھی۔ ایک کار والے نے میری بائیں جانب سے گاڑی نکاتے ہوئے، اس ریڑھی والے کو بھی اسی رفتار سے کراس کرنے کی کوشش کی، جو اپنی ہی دھن میں ریڑھی کو غلط ٹریک پر لے کر جا رہا تھا ۔ میری نظریں کار کے پیچھے لکھے سبز رنگ سے نمایاں مرحبا سرکار کی آمد مرحبا کی تحریر پر مرکوز تھیں کہ کار کا پچھلا حصہ لکڑیوں سے ٹکرا گیا اور اور اس میں ڈنٹ پر گیا۔ کار والے نے وہیں بریک لگائی اور دروازہ کھول کر ریڑھی والے پر کسی عقاب کی طرح جھپٹا اور اس پر تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی۔میرے نذدیک اگر قصور واا ریڑھی والا تھا تو تیز رفتاری کی غلطی کار والے نے بھی کی  تھی۔ کار والے کے ہاتھ جب نہ رکے تو ریڑھی والے نے ایک لکڑی نکالی اور کار والے کے سر میں دے ماری اور اس کے سر سے خون کا ایک فوارہ بہنے لگا ، لیکن اس کے ہاتھ پھر بھی نہیں رکے ۔ لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے کہ ٹریفک رک جاتی میں نے وہاں سے نکلنے میں غنیمت جانی۔
سلیم صاحب محلے سے گزر رہے تھے کہ جب کسی نے چھت سے کچڑا پھینکا،جو کچھ ان کے اوپر اور کچھ قریب گر گیا۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور ایک پتھر اٹھا یا اور جس جانب سے کچڑا آیا تھا، دے مارا ۔ جو کھڑکی میں لگے شیشے کو توڑ تا ہو ا گھر کے اندر چلا گیا۔ عورتوں نے چیخیں مار دیں ا ور اسی لمحے گھر کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک آدمی نکلا اور سلیم صاحب کو گریبان سے پکڑ کر زمین پر گرا لیا۔اور اس کے بعد وہ تھے اور محلے والے۔ جو ان دونوں کو چھڑ ا رہے تھے۔
مقصود کریانے والے نے یہ حرکت سہواً کی تھی یا عمداً ، یہ تو وہی بہتر بتا سکتا ہے۔ لیکن جب میاں بشیر نے بل کے ٹوٹل میں فرق ڈھونڈٖ نکالا تو اس کے بعد ان کی زبان تھی اور مقصود کا خاندان جس کے بارے میں وہ ایسے ایسے کلمات ادا کر رہے تھے کہ مقصود کا ان پر تلملا جانا فطری تھا اور اس نےبھی جواب میں ایک بھرپور گھونسہ میاں صاحب کے منہ پر دے مارا۔اور پھر بات دکان سے نکل کر سڑک تک پھیل چکی تھی۔
چوہدری نذیر صاحب جب امجد صاحب کے گھر ان کو ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کرانے  کیلئے  ان کے گھر گئے ، تو اپنی زبان پر کنٹرول رکھنا بھول گئے اور ایک معمولی سا مسئلہ ساری عمر کیلئے دو خاندانوں کے درمیان رقابت کا باعث بن گیا۔
فاروق صاحب اور حاجی اکبر صاحب مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں ، ایک دن چائے کے کھوکھے پر کسی مسئلے پربحث شروع کی تو بات اس حد تک بڑھ گئی کہ دونوں طبقوں کے علمائے کرام بھی اس میں کود پڑے اور معمولی سی بحث شہر کے امن وامان کا مسئلہ بن کر انتظامیہ کا درد سر بن گئی
اللہ بخش کی بکریاں چوہدری برکت علی کے کھیت میں کیا گھسیں کہ اس کے تو نصیب ہی سو گئے،چوہدری نے غصے میں اس کی بکریوں کو زہر ڈلوا دیا اوراللہ بخش کے بیٹے کو علم ہوا تو اس نے چوہدری کی کھڑی فصل کو آگ لگا دی اور آجکل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے اور اللہ بخش اپنی قسمت کو رو رہا ہے۔
اور ایسے ہی بیسیوں دوسرے واقعات جن سے روزانہ ہمارا واسطہ پڑتا ہے۔برداشت ، تحمل اور بردباری انسانی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتےہیں ۔ آج کا مسلمان اسلام کے نماز، روزہ، حج اور زکواۃ کے سبق کو تو بار بار دھرا کر اپنی دین سے وابستگی کا اظہار کرتا رہتا ہے لیکن بہت سارے اخلاقی مسائل کو یکسر نظرانداز کردیتا ہے۔ حالانکہ اگر ہم اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام اخلاق کے زور پر فتح سے ہمکنار ہواہے اور تلوار کا استعمال صرف متکبر اور قابض صفت عناصر کیخلاف ہوا تھا۔ بہت سارے ممالک میں جہاں آج مسلمان آباد ہیں  قتال  بالکلہی نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں کے لوگ مسلمانوں کے  صرف اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرچکے تھے۔ یہ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے اخلاق تھا جنہوں نے لوگوں کے دل جیت لئے تھے ۔ دعوی تو محبت کا ہم اس احمدِ عربی سے کرتے ہیں جو برداشت کا پیکر تھا توتحمل کی عمارت لیکن عمل کا راستہ ڈھونڈتے ہیں تو فرعون کا، پیچھا کرتے ہیں تو قارون کا۔
مسجد نبوی میں ایک شخص آتا ہے اور پیشاب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ صحابہ کرام سے مسجد کی یہ بے حرمتی برداشت نہ ہوسکی اور اسے مارنے کیلئے دوڑے۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔اور جب وہ فارغ ہوا تو پانی لے کر اس جگہ کو دھو دیا۔ اور اسے انتہائی پیار سے سمجھایا کہ سلیقہ کس کو کہتے ہیں۔
 برداشت دیکھنی ہو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھیں جب ایک اعرابی نے چادر لیکر آپ کی گردن میں ڈال کر اس قدر بل دیے کہ آپ کی گردن پر نشان پر گئے اور مطالبہ کیا اللہ نے تمہیں جو عطا کیا ہے اس میں سے میرا حصہ مجھے دو لیکن پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر کوئی بل نہ آیا ،کوئی شکن نمودار نہ ہوا۔ اور صحابہ کرام کو اشارہ کیا کہ اسے مال میں سے کچھ دیں ۔
 آپ 
صلی اللہ علیہ وسلمکا عفو و درگزر دیکھنا ہو تواس وقت دیکھیں جب آپ آرام کر رہے تھے اور اور ایک شخص نے آپ کی تلوار نکال کر پوچھا تھا کہ اب تمہیں میرے ہاتھوں سے کون بچائے گا تو ٓپ نے فرمایا تھا ،میرا اللہ اور دہشت سے جب تلوار چھوٹ کر گر پڑی تو آپ نے وہ اپنے ہاتھ میں لے لی اور پھر اس سے بدلہ لینے کی بجائے اس کو معاف کردیا۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا تھا۔ کسی کو پچھاڑ دینے سے کوئی پہلوان نہیں بن جاتا۔ پہلوان تو صرف وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔
ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ اسے اللہ نے صرف اس وجہ سے معاف فرما دیا کہ وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا لیکن اگر کوئی واپس نہیں کرتا تھا تو اس سے لڑنے جھگڑنے کی بجائے قرض معاف کر دیتا تھا۔
سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور سورہ منافقون میں منافقوں کے نفاق اور اور ان کی سا زشوں کو آشکار کردیا  گیاتھا لیکن اس کے باوجود بھی  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی جیسے منا فق اور اس کے ہمنواؤں کوآخری لمحات تک برداشت کیا یہاں تک کہ جب وہ مرگئے توآپ  اس کے جنا زہ میں شر کت کے لئے پہنچ گئے تھے۔
 فتح مکہ کے موقع پر جب خون کی ندیاں بہانے کا وقت آیا تو ہندہ جیسی سفاک عورت کو بھی معاف کر دیا۔۔
اور قرآن کیا سکھا رھا ہے ؟ کہ تم درگزرکرنا اختیار کرو۔ اور کیا پیاری گواہی دی ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سخت دل ہوتے تو ان کے ارد گرد کے لوگ کب کے بکھر چکے ہوتے۔
اور قرآن میں اللہ تعالی نے تحمل اور برباری کو قائم رکھنے کیلئے کیا خوب بات کی ہے کہ بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہائیت اچھی ہو۔
یہ شائد چھٹی جماعت کی بات ہے جب میں نے سائیکل چلانا سیکھا تھا۔ جب سائکل کے پیڈل پر پاؤں ٹکانا سیکھ لیا اور سائکل کا بیلنس برقرار رکھنے کا ہنر جان گیا تو سائیکل کی رفتار جس قدر بڑھاتا ،اتنا ہی لطف محسوس ہوتا۔ایک دن ایسے ہی جوش میں پیڈ ل مارتے ، خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا جار ہا تھا کہ سامنے سے ایک موٹر سائیکل سوار آرہا تھا۔ گلی کی ایک جانب کسی گھر کا تعمیراتی سامان بکھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے جگہ کچھ تنگ ہوگئی تھی۔سامنے سے ایک موٹر سائیکل ۔ اچھی خاصی کھلی گلی میں جگہ کی بندش ۔ اور میرے سائیکل کی رفتار کسی لوکل روٹ کی بس کی طرح بے ہنگم،سب کچھ اتنا اچانک ہوگیا کہ میں گھبراہٹ میں بھول گیا کہ سائیکل کی بریک کہاں ہوتی ہے اور جس تیز رفتاری سے آرہا تھا ، اسی رفتار پر سائیکل ڈگمگایا اور موٹر سائیکل والے کو اپنے ساتھ لے ڈوبا۔ غلطی میری تھی ، اس لئے اس خوف نے میرے اوسان خطا کر دئیے کہ اب جو سلوک موٹر سائیکل والا میرے ساتھ کرے گا ،اور اس کا تو سوچ کر ہی میری روح کانپنے لگی، اور مجھے یوں لگا میرا دل ڈوب رہا ہے اور سانس بند ہورہا ہے ۔ اور ایک لمحے کو میں اپنے اوسان کھو بیٹھا۔ لیکن اسی لمحے جب کسی نے مجھے بازاو سے پکڑ کر جھنجوڑا اور ایک شفقت بھری آواز میں پوچھا ، بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں آئی۔ اور میں نے آنکھیں کر کھول دیکھا تو  درمیانی عمر کا
،وہی موٹر سائیکل سوار میرے اوپر جھکا ہو ا تھا ۔اسے دیکھا تو دل کی دھڑکن ایک بار پھر ڈگمگائی لیکن جب اس نے پیار سے اپنے ہاتھ کے سہارے سے زمین سے اٹھایااور اس کے چہرے پر غصے یا کسی غیض و غضب کے آثار نہ پا یا تو  کچھ اطمینا ن ہوا۔ مجھے کھڑا کرنے کے بعد سائیکل اٹھا کر دیا اور بہت ہی دھیمے اور شگفتہ لہجے میں بولا’’ لگتا ہے نیا نیا سائیکل سیکھا ہے، بیٹا یاد رکھو جتنا مرضی تیز چلاؤ لیکن آبادی کے اندر ہمیشہ محتاط رہنا چاہیئے۔‘‘ اس نے بڑھ کر سائیکل اٹھائی اور مجھے تھمائی اور اپنا موٹرسائیکل اٹھا کر سٹا رٹ کی اور چلا گیا۔جس نرمی اور پیار سے اس نے بات سمجھائی تھی اسکا اثر آج بھی میر ی تربیت میں شامل ہے

No comments:

Post a Comment