Thursday, March 21, 2013

جہالت


چند گھنٹے پہلے کلینک میں بہت تشویش ناک حالت میں لائی جانے والی زینب کو مردہ قرار دے کر میں اپنے دفتر میں آکر اپنی کرسی پر ڈھیڑ ہو گیا ہوں ۔ میرے ذہن میں ایک طوفان چل رہا ہے،مجھے یوں لگ رہا ہے میرے ارد گرد دھواں بھر رہا ہے۔ میرا سانس گھٹ رہا ہے۔ کوئی گہری گھاٹیاں ہیں جو مجھے ڈرا رہی ہیں۔ میں موجوں سے خوفزدہ کسی ٹوٹے ہوئے تختے پر بیٹھا، ہراساں کبھی اِدھر کو لڑھک رہا ہوں اور کبھی اُدھر کو۔کوئی سمت دکھائی دے رہی ہے نہ کوئی منزل۔ میرے ذہن میں آندھیاں چل رہی ہیں اور میرے سینے میں ایک عجیب سا طلاطم برپا ہے۔

بائیو کیمسٹری کا یہ دوسرا ٹسٹ تھا، جو پوری کلاس کے ذہنوں پر سوار تھا، ٹسٹ سے ایک دن پہلے کی بات ہے جب ڈاکٹر مشہود کا قتل ہوگیا۔ پورے کالج کی فضا میں ایک خوف اور غیر یقینی کی صورتحال نمایاں تھی۔ ۔گرمیوں کی چھٹیاں قریب تھیں اور آدھی رات کو کالج انتظامیہ نے گرمیوں کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا اورہم اپنا سامان باندھ کر گھروں کو لوٹ گئے۔ 
چھٹیوں کا یہ کوئی دوسرا دن تھا جب امی نے آنٹی کلثوم کی سفارش کی کہ ان کی بیٹی نویں جماعت میں پڑھتی ہے، خاصی ذہین ہے۔ لیکن وہ لوگ ٹیوشن افورڈ نہیں کر سکتے۔ کچھ دیر اسے پڑھا دیا کرو۔اور یوں عاشی سے میرا ایک ایسا تعلق قائم ہوا جو ذات کی تسکین اور غرض کے دوسرے کنارے پر آباد تھا۔ 
صبح کی سیر کیلئے نکلتا تو واپسی پر ایک گھنٹہ اسے پڑھاتا اور پھر اپنے گھر لوٹ آتا۔ ایک متوسط گھرانے کی ذہین لڑکی لیکن جس کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی جب والدین کو بچوں سے زیادہ گھر چلانے کیلئے روزانہ کے اخراجات پورا کرنے کی فکر زیادہ رہتی تھی۔سات افراد پر مشتمل اس گھرانے میں عاشی کی حیثیت ایک خورد رو جھاڑی سے زیادہ نہیں تھی جو بغیر ضرورت کے اگ آتی ہے۔ لیکن وہ ایک ایسی کلی تھی جسے حالات نے وقت سے پہلے پھول میں ڈال دیا تھا ۔
گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کے باوجود سارے گھر کی روح رواں تھی۔امید اور یاس کی پہلی گھڑی، کسی نخلستان سے بکھرتی صحرا میں کوئی ہوا کا جھونکا۔ آواز بدل کر دوسروں کی نکلیں اتارتی، منہ کھول کر اپنے ہموار دانتوں کی نمائش کرتی، ہنستی تو بے ساختہ اس پر پیار آجاتا تھا ، وہ سطحی سی ایک عام سی لڑکی تھی لیکن جب سنجیدہ ہو جاتی تو اس کے باتوں میں ایک دادی اماں والا اعتماد نظر آتا تھا۔ وہ خواب دیکھتی تھی لیکن خوابوں پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ وہ تمناؤں اور خواہشوں کے ہجوم میں رہتے ہوئے بھی اپنی حسرتوں کو بے لگام نہیں ہونے دیتی تھی۔
چند دن میں گھر کے سب افراد اس قدر گھل مل گیا کہ میں ان کے گھر پہلے سے زیادہ وقت گزرنے لگا اور بات کتابوں سے نکل کر لڈو اور کیرم تک پہنچ گئی ۔اور یوں پڑھائی ختم ہونے کے بعد خوب گہما گہما ہوتی۔عاشی کی بڑی بہنیں اور اور بھائی بھی ان میں اس شامل ہوجاتے۔کبھی کسی فلم کی کہانی تخلیق ہو رہی ہے، تو کبھی سیاست پر گفتگو ہو رہی ہے۔ کبھی موسموں میں حسن ڈھونڈا جا رہا ہے تو کبھی فیشن کے بدلتے انداز پر تبصرے ہو رہے ہیں۔ کبھی کسی ڈرامے کے کردار پر تنقید ہو رہی ہے تو کبھی کسی اشتہار کی نقل اتاری جارہی ہے۔عاشی کی اکثر باتیں اتنی بے ساختہ ہوتی تھیں کہ مجھ پر ہنسی کا دورہ پر جاتا اور اس کی باتوں کی لطافت کا مزہ بہت دیر تک محسو س کرتا رہتا۔ جب ان دیکھی بستیوں کی بات ہوتی تو وہ سب سے زیادہ پرجوش دکھائی دیتی۔ اور ہم باتوں باتوں میں تخیل کی بستیاں بساتے، دور کے دیس کے رہنے والوں سے ملنے کا پروگرام بناتے۔ ہم آرزوں اور امنگوں کے قلعے تعمیر کرتے۔
کبھی کبھی وہ اتنی سنجیدہ گفتگو کرتی کہ مجھے اس کی عمر پر شک ہونے لگتا کہ کوئی بوڑھی عورت قید کر کے اس ننھی سی جان میں بند کر دی گئی ہے۔ شائد یہ گھر کے حالات تھے جنہوں نے اسے عمر سے پہلے اس کے اندر ایک سنجیدہ عورت کو آن بٹھایا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی زندگی کتنی ناپائیدار ہے۔ جذبوں کی صداقت لفظوں کی نہیں ارادوں کی محتاج ہوتے ہیں۔ اس کے والدین کو کو اگر اس سے کوئی غرض تھی تو صرف اس حد تک کہ وہ میٹرک کر لے اور بس ۔ لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں ذہانت کی ایک چمک دکھائی دیتی تھی۔ میں اس کے اندر کے فنکار کو نکال کر ساری دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔ میں تراش کر اس ہیرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا۔ اس کی باتوں میں کسی کوئل سی معصومیت جھلکتی تھی۔ وہ ہمیشہ آج میں جیتی تھی اسے کل کی کوئی فکر نہیں تھی۔
اور اس کی باتوں کی کشش نے میرے اور اس کے بیچ ایک بے نام سا رشتہ کھڑا کر دیا تھا۔ جو احترام اور اپنائیت کے کسی سنگم پر کھڑا تھا۔
چھٹیاں ختم ہو گئیں اور میں اپنے کالج لوٹ آیا۔ تعلیمی سرگرمیوں نے زندگی کو کچھ اس طرح سے الجھایا کہ میں عاشی اور اس کے گھر والوں کو یکسر بھول گیا ۔ جب کبھی گھر آنا ہوتا تو اتنے مختصر وقت کیلئے کہ ان کے ہاں جانے کا وقت ہی نہ ملتا تھا۔ایک دن امی نے فون پر درد ناک خبر سنائی کہ ایک ماہ سے عاشی کا بخار نہیں ٹوٹ رہا اور ان کے گھر والوں کے بقول ا س پرسایہ ہوگیا ہے ۔ 
جس دن گھر آنا ہوا میں سارے کام ادھورے چھوڑ کر ا س کے گھر چلا گیا۔ پہلی نظر میں پہچان ہی نہیں پایا ، کہاں وہ زندگی سے بھرپور چہرہ اور کہاں یہ خزاں زدہ صورت ، کہاں وہ پریوں کی کہانیاں سننے والی گڑیا اور کہاں یہ بے روح آنکھیں۔ کہاں وہ شرمیلی اور شگفتہ مسکراہٹ اور کہاں زندگی سے خائف یہ ہونٹ۔ اس کی بیماری کا سن کر شائد مجھے اتنا صدمہ نہیں ہوا تھا لیکن اسے دیکھنے کے بعد مجھے یوں لگا جیسے میرے جسم سے کسی نےروح کھینچ لی ہو۔ کسی صندوقچے میں بند کرکے اس میں روشنی بند کر دی ہو۔میں دم سادھے بے یقین لہجے میں اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھا ما ، تو میرے جسم میں ایک عجیب طرح کی اضطرابیت پھیل گئی۔ 
ساری باتوں کا علم ہوا تو میں نے اس کے والدین سے کہا اسے لاہور لے کر آئیں میں وہاں کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھاؤں گا ۔ یہ جنات اور سائے والی باتیں تو آپ لوگوں نے خواہ مخواہ بنا لی ہے۔ آج کے مصروف دور میں ، بھوت اور چڑیلیں اتنے فارغ نہیں کہ وہ قبضہ گروپ قائم کرتے پھریں۔ اور نہ ہی یہ اتنی بزدل ہے کہ ان کو یوں کھلے عام گھسنے کی اجازت دے۔ عاشی کے چہرے پر ایک بے جان سی حرکت پیدا ہوئی جیسے کسی نے مردے کے گالوں کو کھینچ کر اس میں مسکراہٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہو لیکن جلد ہی یہ مسکراہٹ دم توڑ گئی۔ میں نے سیب کاٹ کر اس کو دیا ، دودھ کا گلاس آگے بڑھایا، کچھ لطیفے سنائے ،کچھ کالج کی باتیں کیں۔ اس کو وہ وعدے یاد دلائے کہ امتحانوں کے بعد ہم نے جھیل کنارے بونوں کی بستی کی تلاش کرنے جانا ہے، سبز پری کو اپنے گھر بلانا ہے، اور وہ فلم بھی جس کا خاکہ ہم نے ایک دن بیٹھے بیٹھے بنایا تھا۔ وہ سنتی رہی ۔ اس کے چہرے سے دلچسپی کا تاثر تو ابھرتا تھا لیکن وہ ان کوزیادہ دیر تک قائم رکھ نہیں پاتی تھی۔
اس کے ابو سے لاہور آنے کا سارا پرگرام طے کرکے میں لاہور واپس آگیا ۔ لیکن عاشی اور اس کے گھر والے لاہور نہیں آئے۔ امی سے ان کے گھر کے حالات کا پتا چلتا رہتا تھا، کبھی خبر آتی، انہوں نے کسی ڈاکٹر کو دکھایا تھا اور اس نے ٹی بی کی دوا پر ڈال دیا ہے۔ لیکن پھر پتا چلتا کہ دوائی چھوڑ کر کسی پیر صاحب کے تعویذ پلانا شروع کر دیے ہیں۔ جب طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو ایک اور ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ٹی بی کی دوائی دوبارہ شروع کر دی۔
لیکن بیماریوں پر ان کا یقین کبھی قائم نہ ہو سکا اور اور وہ کبھی دم کروانے کہیں لے جا رہے ہیں تو کبھی کسی پیر صاحب سے جادو کا علاج کروا رہے ہے ہیں ۔ کبھی کسی درخت کے ساتھ دھاگے باندھنے جارہے ہیں تو کبھی بچوں میں کوئی شیرینی بانٹی جا رہی ہے۔ 
جب میں آخری بار عاشی سے ملنے گیا تو ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر میرے اعصاب جواب دے گئے ۔ لرزا دینے والی ایک کیفیت میرے اوپر طاری ہوگئی تھی۔ نہ اس گدگدی کا احساس ہوا جو اسے دیکھ کر بیدار ہوتی تھی نہ وہ سرشاری جو اس کی آنکھوں میں جھانک کر ہوتی تھی۔ اور میں اس کے گھر والوں پر برس پڑا۔ جب بیماری کا علم ہوچکا ہے اور سارے ڈاکٹروں کے نزدیک اس کو ٹی بی کا مرض ہے ۔لیکن آپ لوگ ہیں کہ اپنے وہموں سےنکل ہی نہیں رہے ہیں۔ایک بار اس معصوم کو دوائی کھلا کر دیکھ تو لیں ۔ لیکن اس کی ماں اپنے نصیبوں کو روتی رہی۔ 
وہ سچائی کے راستوں کو نہیں پہچان سکتی تھی کسی تاریک کنویں کے باسی کی طرح اسکی نظریں آسمان سے ہو کر لوٹ آتی تھیں۔ لیکن اس آسمان کے نیچے بھی ایک وسیع دنیا ہے وہ یہ کبھی نہیں جان سکی۔ وہ تو بس انسانی رشتوں کو شک کی نظر سے دیکھتی رہی کہ پتا نہیں کس حاسد نے ان کا گھر اجاڑ دیا ہے۔
جب میری کسی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوا تو میں نے بوجھل قدموں سے واپس جاتے ہوئے آخری بار عاشی کی طرف دیکھا اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو ڈبڈباتا دیکھ کر ایک بار تو میرا دل بھی بھر آیا۔ لیکن میں جہالت کے ان گھپ اندھیروں میں کوئی بھی چراغ جلانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔
لوگ کہتے ہیں اکسویں صدی کا شعور پچھلی صدیوں سے مختلف ہے۔لیکن یہ کیسا شعور ہے،؟ یہ کیسا وجدان ہے؟ جو آج بھی غار کے انسان کی سوچ لئے ہوئے ہے۔ ہم نے چاند پر جانے کا رستہ ڈھونڈ نکالا، ایٹم کے ذرے کو توڑ کر ایندھن کے ذخائر حاصل کر لئے، سمندروں کے پانی کو چیڑ کر ان دیکھے جزیرے ڈھونڈ نکالے، اڑتے پرندوں کے ساتھ اڑنے کی خواہش پوری کر لی، دریاؤں کے بہتے پانی کو کسی سرکش گھوڑے کی طرح سدھا کر رام کر لیا۔ فلک بوش پہاڑوں کو سر کر کے ان کی ہیبت اور غرور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔ لیکن میرے دیس کے لوگ آج بھی اس شعور اور فہم سے محروم ہیں۔ یہ آج بھی غار کے زمانے میں رہ رہے ہیں ۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ اٹھ کر پکے گھروں میں آباد ہو گئے ہیں لیکن ۔نہ تو مذہب ان کا کچھ بگاڑ سکا نہ ہی اکسویں صدی کا شعور۔
وہ ایک اداس شام تھی ، جب میں اسے منوں مٹی کے نیچے سلا کر آرہا تھا۔ جنازے سے لیکر قبر پر مٹی ڈالنے تک میں ایک تذبذب کا شکار رہا تھا ۔ غیر ارادی طور پر چپ چاپ، بوجھل قدموں کے ساتھ۔ باہر کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ بے بسی، اور ناامیدی کی ایک یلغار تھی۔ کسی جذباتی محرومی کا احساس۔ جونہی میں گھر پہنچا ہوں میرے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔اور میں دیر تک بلک بلک کر روتا رہا۔ میں اپنی آنکھیں بند کئے اشکوں کی قطار ر سجائے اپنے شعور کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ 
آج جب زینب نے میرے کلینک میں دم توڑا، تو مجھے یوں لگا جیسے میری عاشی آج دس سال بعد دوبارہ مر گئی ہے۔
میم۔سین

No comments:

Post a Comment