Friday, March 8, 2013

تضاد

چند دنوں سے میرے عاجزی نے انکار کا درجہ اختیار کرنا شرع کر دیا ہے۔ اضطرابیت کا طوفان ہے اور بے سکونی کی موجیں تھپڑے مار رہی ہیں۔یہ درست ہے مایوسی کو اتنی آسانی سے، میں قبول نہیں کرتا لیکن جب آپ کو شدت سے اس بات کا احساس ہو رہا ہو۔کہ آپ کی سب سے قیمتی متاع چرا لی گئی ہے تو جتنے مرضی دعوی کر لیں کہ آپ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، لیکن بالآخر یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ شخصیت کے توڑ پھوڑ سے بچاؤ کے سارے ہتھیار بیکار ہوچکے ہیں ۔ سارے استدلال بے معنی ہوگئے ہیں۔ہاں شائد اس بات کا اقرار مجھے پھر سے میرا یقین واپس لادے کہ میں آج شکست وریخت کا شکار ہو گیا ہوں۔ میرے شخصیت کے بت پاش پاش ہوگئے ہیں اور اس سلسلہِ انتشار میں، میری ذات بھی ریزہ ریزہ ہوگئی ہے۔ قاری محمد حسین صاحب سے میری پہلی ملاقات اس دن ہوئی تھی جب میں علی محمد نمبردار کے گھر کھانے کی دعوت پر گیا تھا جو انہوں نے ریڑھ کی ہڈی کے کامیاب آپریشن کے بعد صحت یابی کے شکرانے کے طور پر کی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد چائے کے انتظار میں بیٹھے ، باتوں میں مشغول تھے کہ اذان کی آواز بلند ہوئی تو کسی نے مشورہ دیا پہلے نماز ادا کر لیتے ہیں۔ چائے واپسی پر پیتے ہیں اور سب نے بات سے اتفاق کیا اور گھر سے نکل کر قریبی مسجد کا رخ کیا۔ جماعت کے دوران امام صاحب کی قرات نے جو سرور باندھا اس نے ایک بار تو ہم سب کو یہ بھلا دیا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں کھڑے ہیں۔ قاری صاحب سے تعارف ہوا تو یہ سن کر ان سے عقیدت اور احترام کا جذبہ مزید بڑھ گیا کہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں اور ایک سکول میں پڑھاتے ہیں۔ مسجد اور ساتھ ملحقہ مدرسے کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے۔ جس قدر خوبصورت آواز کے مالک تھے اتنے ہی پیارے مزاج کے مالک اور شائستہ گفتگو کے ماہر بھی ہیں۔ ایسی دلکش شخصیت کے حامل ہیں کہ پہلی ہی ملاقات میں دل موہ لیا۔ اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔دین سے خاص لگاؤ اور مسائل کو بیان کرنے کا انداز انتہائی سہل اور دلچسپ ہوتا ہے کہ دل کرتا ہے کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ ان سے محبت اور اور عقیدت اس دن اور بڑھ گئی جس دن میں نے انہیں پہلی بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دی تو بولے امام احمد حنبل جب کسی کو بیٹی کی پیدائش کی مبارکباد دیتے تو کہتے تھے انبیا بیٹیوں کے باپ تھے۔ کچھ عرصے بعد اللہ نے انہیں ایک اور بیٹی سے نوازا، تو میں نے مبار ک باد دی تو جس انداز میں بیٹی کی فضیلت اور اسلام میں دئیے گئے مرتبے اور اہمیت کو اجاگر کیا میں دیر تک مہبوت بنا ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں سے ایک خوشبو محسوس ہورہی تھی کہ دو بیٹیوں کی بلوغت تک پرورش اور کفالت کرنے والا ، قیامت والے دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے کھڑا ہوگا جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ پھر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ جس شخص کو اللہ نے دو بیٹیاں دیں اور جب تک وہ اس کے ساتھ رہیں وہ ان پر احسان کرتا رہے ۔ تو وہ دونوں بیٹیاں اسے جنت میں داخل کرا دیں گی۔ کہنے لگے بیٹیوں کی پیدائش پرخفا ہونا جاہلانہ دور کی عادتیں اور اور قرآن مجید میں اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور بیٹی کی اہمیت یوں اجاگر کی ہے کہ قرآن مجید میں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے آیا ہے اللہ کے نبی کی بیٹیوں سے والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگاؤ کہ ایک دفعہ فرمایا کہ اولاد میں برابری کی بنیاد ہر چیز کو تقسیم کرو لیکن اگر میں تقسیم کے معاملے میں کسی کو ترجیع دیتا تو لڑکیوں کو دیتا۔ بچوں کی پیدائش کے بعد انہوں نے گاؤں چھوڑ کر رہائش شہر میں اختیار کرلی لیکن گاؤں کے مدرسے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں رکھا۔ شہر آنے کا اگر چہ  گاؤں والوں کو نقصان ہوا تھا لیکن میری ملاقاتیں ان سے پہلے سےبڑھ گئیں اور ہمارا تعلق آپس سے میں بہت مضبوط ہو گیااور جب ایک مقامی مسجد میں جمعہ پڑھانا شروع کیا تو ان کے ان کے علم اور خلوص سے سارے مکاتب فکر کے لوگ متاثر نظر آنے لگے ۔ ان کی فصاحت و بلاغت کا ہر شخص قائل نظر آتا ہے۔ان کا بیان کرنے کا ایک اپنا اسلوب ہے۔بیان اور اس سے اخذ نتائج میں ایک ترتیب ہوتی ہے جو کبھی خراب نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جو ایک بار ان کا جمعہ کا خطبہ سن لے وہ اگلی بار خطبہ کے وقت سے پہلے مسجد میں بیٹھا دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی مغرب کے بعد میرے پاس کلینک آجاتے تو ان سے دینی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔یوں میر ا ان سے عقیدت کا ایک گہرا تعلق قائم ہوتا چلا گیا۔ لیکن اس تعلق میں پہلی ضرب اس دن پڑی جب وہ مٹھائی لیکر آئے اور اولاد نرینہ کی نعمت سے نوازے جانے کی خوشخبری سنائی۔چونکہ بیٹیوں کی پیدائش پر انہوں نے ایسی کسی خوشی کا اہتمام نہیں کیا تھا اس لئے مجھے کچھ اچنبھا ہوا۔لیکن جب انہوں نے ایک حدیث مبارکہ سنائی تو میرے دل سے غلط فہمی کا بیج اگنے سے پہلے ہی اکھڑ گیا جب انہوں نے ایک واقعہ سنا کر دین پر قائم رہنے کی درخواست کی۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہو اتھا اس کا بیٹا آیا تو اس نے اس کو پکڑ کر بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اس کی بیٹی آئی تو اس کو پکڑ کر اس کو پہلو میں بٹھا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے دونوں کے درمیان عدل نہیں کیا۔ایک بوسہ دینے اور پاس بٹھانے میں تفریق کرنے سے اگر عدل کا ترازو ہل جاتا ہے تو دعا کریں اللہ ہمیں اپنے بچوں کے درمیان انصاف اور عدل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یوں ان کی شخصیت کا طلسم میرے اوپر قائم رہا۔لیکن کل جب چھ ماہ کی عمر میں پہلی بار بیٹے کو چیک کروانے آئے تو ان کے ہمراہ ان کی بیٹی بھی تھی۔ بیٹے کے بارے میں خاصے متفکر تھے کہ سفر کیا تھا اور اور صبح سے چھینکیں لے رہا ہے۔ میں نے چیک اپ کے بعد کہا کوئی فکر والی بات نہیں ہے۔ ابھی دوائیوں سے محفوظ ہی رکھیں تو بہتر ہے۔ میری بات سے مطمئن نظر نہ آئے لیکن میری تسلی دینے کے بعد مسلسل کھانستی بچی کو آگے کرتے ہوئے بولے اسے بھی کوئی کھانسی کا شربت دے دیں پورا ہفتہ گزر گیا ہے سونے نہیں دیتی ،ساری رات کھانسی کرتی رہتی ہے
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment