Sunday, March 3, 2013

بسنت

انسان کی ہمیشہ سے پرندوں کی طرح اڑنے کی خواہش رہی ہے، آسمانوں کو چھونے کا جنون طاری رہا ہے۔ہوا میں اڑتے تیرتے پرندوں نے ہمیشہ سے انسان کو مسحور کیا ہے۔ جب خود اڑنے کے قابل نہ ہوسکا تو پھر کاغذ کو ،کبھی کپڑے کو دھاگے سے باندھ کر اڑانے لگا۔ اور نہیں معلوم اڑنے والے اس اس خاکے کو پتنگ کا نام کس نے دیا۔
 تاریخ میں چین میں سرنگ کی کھدائی کے لئے اگر مدد لی گئی تو کوریا میں فوج کا مورال بلند کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔جاپان والوں کیلئے تو نشہ ثابت ہوا اور اسے صرف شاہی خاندان کیلئے مختص کر دیا گیا۔ مارکو پولو نے یورپ والوں کو اس کے سحر کے بارے میں بتا یا ۔ تو ہندستان والوں نے تو اسے صنعت کا درجہ دے ڈالا۔
کل جب آسمان پر ایک گلابی رنگ کی پتنگ اڑتے دیکھا تو میرے ماضی کے دریچوں میں سے ایک دریچہ یوں کھلا کہ میں وقت کی قید سے آزاد ہو کر اپنے آبائی گھر کی چھت پر جا پہنچا۔جہاں چھٹی والے دن ، میں شاپر کاٹ کر ان میں جھاڑوکے تنکے باندھ کر کپڑے سینے والے دھاگے کی مدد سے پتنگ اڑایا کرتا تھا۔ ہوا میں بلند کر کے اس کو دیر تک تیرتے دیکھنا اور اس کو ہوا میں رقص کرانا میرا شوق ہی نہیں جنون بھی تھا۔ میرے نزدیک اس میں ایک شاعری چھپی ہوتی تھی جسے میں اپنے ہاتھوں کی حرکت سے پیدا کرتا تھا۔اور یوں میں تخلیق کے ایک تجربے سے خود کو گزار کر محظوظ ہوتا تھا۔ لیکن جب میری پتنگ ہوا میں بلند ہوتی توپیشہ ور پتنگ باز اپنی ڈور کی دھار چیک کرنے کیلئے میری پتنگ پر سڑک پر چلتی تنہا دوشیزہ پر غنڈوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ۔ کبھی تو وہ کامیاب ہوجاتے اور میری ہاتھ سے بنی پتنگ ہواؤں میں کہیں کھو جاتی اور کبھی میں ان سے بچا کر اسے واپس اتارنے میں کامیاب ہوجاتا۔
جب یہ حملے بڑھ گئے تو میں نے بھی ڈور کا استعمال شروع کر دیا لیکن پہلے ہی دن ابھی میری پتنگ نے ساتھ والے گھر کی چھت کو عبور کیا تھا کہ ماسٹرفضل کے صحن میں لگے نیم کے درخت سے ایک طوطا اڑا اور میرے پتنگ کی ڈور میں پھنس گیا میں نے تیزی سے ڈور کو کھینچا لیکن میری کوشش بیکار گئی اور ڈور میں پھنسا طوطا ہمسائیوں کی چھت پر آگرا۔ اس ناگہانی آفت سے، کچھ لمحوں کیلئے تو میں پریشان ہوگیا لیکن پھر طوطے کو پانے کی خوشی میں دوڑا دوڑا گیا اور اپنے دادا کے فوج کے زمانے سے سنبھالے چمڑے کے دستانے پہن کر پہلی بار غیر قانونی طور پر ہمسائیوں کی چھت پر کود نے کا رسک لے لیا ۔ ۔ ڈور سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش میں طوطا مکمل طور پر جکڑا گیا تھا۔
 بڑی مشکل سے اس ڈورسے رہائی دلا کر اسے برتنوں کی ڈولی سے چیزیں نکال کر اس میں بند کر دیا۔ اور میں اپنی پتنگ بازی بھول کر اپنے طوطے کے منہ سے باتیں سننے کیلئے بے چین رہنے لگا۔ خصوصی پنجرہ خریدا گیا، امرود، سیب، سبزیاں اور سب سے بڑھ کر دیسی گھی کی چوری کھانے کو لا کر دیں لیکن پہلے دو دن تو اس نے کسی کی طرف دھیان نہیں دیا۔ لیکن پھر آہستہ آہستہ کھانے پینے لگ گیا ۔جوں جوں پنجرے کے ماحول سے مانوس ہوتا گیا ، اس کی حرکتوں اور اس کی چہچہاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے منہ سے باتیں سننے کیلئے میں نے سارا سارا دن اس کو پڑھانا شروع کر دیا ، گھنٹوں اس سے باتیں کرتا کبھی سیٹیوں کی آوازیں نکالتا لیکن اس نے ٹیں ٹیں کے علاوہ کوئی لفظ ادا نہ کئے۔ کسی نے کہا اس کو سبز مرچیں کھلاؤ، کسی نے کہا اس کے اوپر ٹھنڈہ پانی ڈالا کرو۔ کسی نے بتایا اس کے پنجرے میں روشنی بند کر دو، گھپ اندھیرہ رکھو، کسی نے مشورہ د یا کہ روزانہ ٹین کے برتن اس کے سر پر بجایا کرو۔سارے ٹوٹکے کر ڈالے، سارے مشورے آزما کر دیکھ لئے لیکن اسے باتیں کرنا تھیں اور نہ اس نے کیں۔ ایک دن ایک بزرگ مہمان آئے ان سے مشوہ کیا تو بولے۔ طوطوں کی ساری نسلیں باتیں نہیں کرتی ہیں۔ اور جس نسل یہ طوطا تعلق رکھتا ہے اسے تو تم علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی داخل کرا دو تو یہ باتیں نہیں کرے گا۔اور میں ان کی باتو ں سے اتنا مایوس ہوا کہ پنجرہ اٹھا کر سکول کے گراؤنڈ لے جا کر اس کا دروازہ کھول دیا۔
طوطے کے ساتھ گزارے وقت نے پتنگ بازی کا نشہ ذہن سے بھلائے رکھا ۔لیکن جب دوبارہ پتنگ اڑانے کی کوشش کی تو اب وہ پہلے والی بات نہیں تھی۔ اڑانے سے زیادہ چھت پر لیٹ کر آسمان پر رنگ برنگی پتنگوں کو دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی خیالوں میں، میں بھی اڑنے لگتا۔ اڑتا اڑتا کسی دور کی بستی پہنچ جاتا ،جہاں بیٹھ کر میں کہانیاں بنتا، کردار تخلیق کرتا اور ان کرداروں کو لیکر دنیا بھر میں گھومتا پھرتا۔ کبھی بادلوں پر بیٹھ کر جنوں کے قلعے ڈھونڈتا۔کبھی کوہ قاف کی پریوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔کبھی اڑتا ہوا کسی جھیل کنارے پہنچ جاتا اور کبھی کسی دشت نوردی میں خود کو ہلکان کرتا پھرتا۔
لیکن پھر آسمان پر ان رنگ برنگی اڑتی پتنگوں کو نظر لگ گئی ۔ بسنت کے نام سے بہار کی آمد پر چند دنوں کیلئے ایک آندھی اٹھتی تھی جو اس معصوم سی پتنگ پر سینکڑوں الزام چھوڑ جاتی۔ااور وہ اپنی ذات پر لگے ان الزاموں کو سارا سال دھونے میں لگی رہتی۔ لیکن ہر سال اس آندھی کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور اس نے ایک طوفان بدتمیزی اختیار کر لیا۔صرف لاہور یا شائد کسی حد تک گوجرانوالہ میں منایا جانے والا بسنت کا میلہ ملٹی نیشنل کمپنیز نے یرغمال بنا لیا۔ تراش خراش کراسے نئے کپڑے پہنا کر ہر شہر میں کسی بازاری عورت کی طرح سجا کر بٹھا دیا۔ جب رئیس زادوں ،نودولتیوں اور کمپلکس کے مارے لوگوں کے ہاتھوں اس معصوم کی عزت اچھالی جانے لگی تو یہ معصوم سی پتنگ ایک بدکردار اور فاحشہ کا روپ اختیار کر گئی۔جس کے خاطر گردنیں کٹنے لگیں، خون بہنے لگا، کتنی ماؤں کی گود اجر گئی اور کتنے سروں سے سایہ اٹھ گیا۔کتنے چولہے خاموش ہوگئے او ر کتنے مسکراتے چہروں کی خوشیاں ہمیشہ کیلئے روٹھ گئیں۔
کھیل تو کھیل ہوتا ہے۔ وہ کھیل چاہے کرکٹ کا ہو یا ہاکی کا، سکواش کھیلی جائے یا سنوکر۔کشتی کا اکھاڑہ ہو یا فٹبال کا میدان۔کچھ اصول ہوتے ہیں، کچھ ضابطے اور کچھ اخلاقی پہلو ہوتے ہیں۔نظم و ضبط ہوتا ہے ۔کچھ سیکھنا مطلوب ہوتا اور کچھ سکھانے کی جستجو ہوتی ہے۔لیکن جب کھیل کے نام پر ، سماجی اور مذہبی اقدار کی دھجیا ں بکھیری جانے لگیں۔جب ثقافت کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی کھڑا ہونے لگے۔جب خوشیوں کے نام پر لوگوں کیلئے اذیت کا سبب بننے لگ جائے،تہذیب و اخلاق کی حدیں عبور ہونے لگ جائیں۔ راستوں پر خوف کے بادل منڈلانے لگ جائیں تو وہ کھیل نہیں رہتا۔ وہ کھیل کے نام پر ایک دھبہ بن جاتا ہے۔ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے،بے حسی اور بے بسی کی ایک مثال بن جاتا ہے۔ کسی خون آشوب کہانی کا کوئی باب دکھائی دینے لگتا ہے۔
کچھ ایسا ہی حشر چین کی ہواؤں میں پہلی بار بلند ہونے والے پتنگ بازی کے اس کھیل کے ساتھ ہم نے کیا۔کھیل اورجشن کے نام پر مدہوش ہو کر کر ہم اس قدر اندھے ہوگئے کہ نہ تو ہمیں اپنا دین لٹتا نظر آیا اور اور نہ ہی وطن کی تباہی کا کوئی خیال کبھی ذہن میں آیا۔
اور آج یہ معصوم سی ، خوابوں کو بیدار کرتی ، دلکشی پھیلاتی آسمان پر پرندوں کی طرح تیرتی پتنگ اپنی عصمت یوں گنوا بیٹھی ہے کہ میں اس سے اپنے رومانس کا ذکر کرنے بیٹھوں تو انگلیاں میری جانب یوں اٹھ جاتی ہیں کہ میں کسی طوائف سے محبت کا دعوی کر بیٹھا ہوں۔
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment