Tuesday, March 12, 2013

کچھ چورنگی کی بارے میں


یہ نویں جماعت کی بات ہے ناصر کاظمی کی شاعری دل کو کچھ ایسے بھا گئی کہ ششماہی امتحان میں جب ’ میرا پسندید شاعر‘ پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تو تو میں نے ناصر کاظمی کا ہی انتخاب کیا۔ لیکن میرے اردو کے استاد نے اس بنا پر نمبر کاٹ لئے کہ جو مضمون علامہ اقبال پر میں نے لکھوایا تھا وہ کیوں نہیں لکھا۔ادارہ تحقیق وتخلیق کے زیراہتما م مضمون نویسی کے ایک مقابلے میں شرکت کی تو اس کا نتیجہ کا علم اس وقت ہوا جب کالج سے نکلے ہوئے عرصہ بیت چکا تھا اور ایک دن  کالج کی دردیوار سے اپنے تعلق کو ڈھونڈنے نکلے تو جب نوٹس بورڈ پر پہنچے تو تو ایک اعلان نے چونکا دیا کالج کے طالب علم کا اعزاز۔ مضمون نویسی کے آل پاکستان مقابلے میں اول پوزیشن۔ لیکن جب شہر تو کیا جنگل بھی خالی ہوچکا تھا تو مور کو ناچتے  نے دیکھنا تھا؟ میڈیکل کالج میں نام نہاد ادبی ذوق کے حامل طلبا جس طرح پراف میں کامیابی کیلئے پروفیسروں سے اپنےتعلق کو بڑھانے کیلئے اد ب کا سہارا لیتے تھے ، اس نے خودنمائی سے اس حد تک نفرت پیدا کر دی ، کہ خود کو رازی اور ابولفضل کے قلمی ناموں میں چھپا لیا۔جب کلینک شروع کر کے عملی زندگی کا آغاز کیا تو معلوم ہوا حقیقت اور خواب میں کتنا فرق ہے۔لوگوں کے نزدیک انسانیت کی نہیں ، عہدے کی اہمیت ہوتی ہے۔ سڑک کنارے اگر آپ کھڑے ہیں ، توریڑھی والا بھی آپ کو، او مولوی صاحب تینوں نظر نہیں آندا۔ کہہ کر پکاڑتا ہے۔ اور ویگن کا کنڈیکٹر بھی آپ سے آپ کے حلیے کی وجہ سے بدتمیزی کرنا فرض سمجھتا ہے۔اور جب آپ کے بارے میں پتا چل جائے کہ آپ کسی اہم سماجی عہدے پر فائز ہیں تو، ستاں ہی خیراں۔ کچھ یہی صورت حال ایک پسیماندہ علاقے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر ہو رہا ہے۔کسی شادی کی تقریب میں چلے جائیں یا کسی کے گھر کسی کی وفات پر تعزیت کرنے پہنچ جائیں تو جونہی پتا چلا کہ آپ طب کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں ، ساری گفتگو ختم، ساری بحث بند۔ کسی کو اپنی دادی کے بلڈ پریشر کیلئے مشورہ درکار ہے ، تو کسی کو اپنے ہمسائے کی دائمی کھانسی کی فکر ہے۔ کوئی ڈاکٹروں کے رویے سے نالاں ہے ، تو کسی کو اس بات سے دلچسپی ہے کہ اس کی پھوبھی کی بیٹی کے ہاں تیسرے بچے کی پیدائش اپریشن سے کیوں ہوئی تھی حالانکہ پہلے دونوں بچے نارمل ڈلیوری سے پیدا ہوئے تھے۔ کوئی یہ جاننے کیلئے بے چین نظر آتا ہے کہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کی افادیت کیاہے اور ایلوپیتھی کس قدر مہلک طریقہِ علاج ہے۔ تو کوئی آپ کو ہلدی اور تھوم کے فوائد سے آگاہ کر رہا ہوتا ہے۔ یوں آپ کو آپ کی مرضی کے خلاف دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی آپ تنہائی کے ایک مزاج میں داخل ہوجاتے ہیں۔ میں بھٹکتا رہا ، سرگرداں رہا،نہ منزل نہ ٹھکانہ ، گھو م پھر کر وہیں خول میں واپس ۔لیکن جب حبس جنوں حد سے بڑھا تو قلم کا غذ کا سہارا لیکر بیٹھ گیا ۔ جو باتیں میں کسی سے کہہ نہیں پاتا تھا، وہ خیالات جن کا تبادلہ خیال کسی سے نہیں کر پاتا تھا ان کو لفظوں میں سمونا شروع کر دیا۔ اسی لکھنے لکھانے کے چکر میں گھومتے گھماتے ڈاکٹر رضوان اسد خان نے ہاتھ پکڑ کر چورنگی پہنچا کر خود تو پتا نہیں کہاں غائب ہوگئے لیکن مجھے اپنے صبر ایوب کا صلہ ضرور مل گیا ۔چورنگی پہنچنے کے بعد یوں محسوس ہو جیسے گمشدہ بھیڑ کو کوئی ریوڑ مل گیا ہو۔اور وہ جنگل کی خوف اور دہشت زدہ ماحول سے نکل کر اپنے گھر کو لوٹ آئی ہو۔ یا جیسے تنہائی کا زہر پیتے پیتے، کوئی مٹھاس سے بھرپور مشروب مل گیا ہو۔ چورنگی کے ماحو ل میں ایک بے ساختہ پن ہے۔ یہاں صداقتوں کا ایک ایسا چشمہ بہہ رہا ہے جو کبھی خشک ہونے کیلئے نہیں ہے۔یہاں زندگی کی یکسانیت نہیں ملتی ، یہاں رشتوں پر اعتقاد پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اخوت اور مساوات کی ایک پرکیف فضا قائم نظر آتی ہے۔ جہاں ہر موضوع پر اگر پڑھنے کو ملتا ہے تو ہر مزاج کے شخص سے ملاقات ہو جاتی ہے، حسیب صاحب تو حسن اخلاق اور شگفتہ لہجے کا جال بچھائے بیٹھے ہیں جس کے دام میں چورنگی میں داخل ہونے والا ہر شخص آجاتا ہے۔ شکستہ دل انسانوں کے جم غفیر کو سنبھالنے کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں۔روح کی سوگواری کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے جس نے سمندر نہیں دیکھا ان کو جھیل کا نظارہ کرا کر خوش کر دیتے ہیں۔ کاشفہ کاشفہ صاحبہ تو مجھے حسینہ معین کے کسی ڈرامے کی ہیروئین لگتی ہیں ۔ زندگی سے بھرپور ۔اجتماعی احساس کی امنگ سے معمور۔جو ابتدائی قسطوں میں لابالی سی سے دکھائی دیتی ہے ، کوئی بڑا کام کرنا چاہتی ہیں ۔کوئی غیر معمولی کارنامہ سرانجام دینا چاہتی ہے لیکن ہر بار کوئی غلطی سر ذد ہو جاتی ہے اور وہ چورنگی کو اپنے آغا جانی سمجھتے ہوئے اپنے گلے شکوے کرنے چلی آتی ہیں ۔ ذولقرنین علی چغتائی صاحب نے اگر پرفائل پر اپنی تصویر نہ لگائی ہوتی تو شائد یہی گمان ہوتا کہ چنگیز خان نے انسانی خون سے کھیل کھیلنے کی بجائے اب قلم اور کاغذ کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ان کی تصویر دیکھ کر لگتا ہے ۔انہوں نے دائی کے ہاتھوں کسی غزل کی گھٹی لی ہوگی۔اور منہ سے پہلے الفاظ جو نکلے ہونگے وہ طاہر القادری پر تنقیدی جملے ہونگے۔ انہیں دیکھ کر ماسٹر اسلم صاحب یاد آجاتے ہیں جو گرمیوں کی چٹھیوں کاکام بھی اس انہماک سے دیکھتے تھے کہ اس پر بھی زیر زبر اور کومے کی غلطیوں کی موٹے مارکر سے نشاندہی کر دیتے تھے۔بلیو نیل صاحب کا اصل نام کیا ہے، کون ہیں ، کس دیس سے آئے ہیں ہمیں کچھ علم نہیں لیکن اکثر اوقات یوں لگتا ہے کلاس کا سب سے ذہین لڑکا کچھ خفا خفا سا ر ہتا ہے۔ ان کے طنز کا زہر اس قدر پاٹ دار ہوتا ہے کہ لگتا ہے دوسرا سانس لینے کا موقع نہیں دیں گے۔ طبیعت میں لابالی پن اور مزاج میں ایک انداز لاپرواہی دکھائی دیتا ہے۔ بہت اچھے تجز یہ نگار ہیں لیکن من موجی ہیں۔جی میں آیا تو ہر پوسٹ پر اپنی رائے دے ڈالی ،نہیں تو اپنی پوسٹ کو بھی پلٹ کر نہیں پوچھا۔ نہ صرف بہت اچھا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔ بلکہ بہت اچھوتے حس مزاح کے بھی مالک ہیں۔ حکیم عارف عبداللہ صاحب تو ہمیں ایک بلند دراز، اچکن پہنے اور سر پر قراقلی ٹوپی پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ خدشہ رہتا ہے ان کی تحریریں پڑھ کر جو شخصیت ہم نے ذہن میں ڈھالی ہے اس کے ساتھ وہی سلوک نہ جو مولانا آزاد کو دیکھ اس وقت کے علمی اقابرین کا ہوتا تھا۔ آزاد صاحب نے ایک تو تخلص اتنا بھاری رکھا ہوا تھا۔اور اوپر سےتیرہ چودہ برس کی عمر میں اتنا علمی اور ادبی کام کر ڈالا تھا کہ قلمی طور پر ان کا ذکر ہر علمی نشست میں بطور خاص ہوتا تھا لیکن جب با لمشافہ ملاقات ہوتی تو ایک چھوکڑے کو دیکھ کر بار بار دریافت کیا جاتا کیا واقعی یہی لڑکا آزاد ہےْ ؟حکیم صاحب ایک سخت گیر بزرگ کی طرح چورنگی پر پہڑہ دیتے نطر آتے ہیں ۔ چورنگی کی روایات کے پاسدار ہیں۔ اور گھر کے بزرگ کی طرح جب وہ کسی بحث میں نمودار ہوتے ہیں تو سب پر ایک سناٹا چھا جاتا ہے۔لبنی صاحبہ تو مجھے فاطمہ ثریا بجیا کے کسی ڈرامے کی بڑی آپا دکھائی دیتی ہیں ۔جو کبھی تو نصیحتیں کرتی نظر آتی ہیں اور کبھی ڈانٹتی، سمجھاتی، بڑی آپا ہونے کے ناطے سارے چورنگی والوں سے اپنا تعلق رکھتی ہیں اور فرداً فرداً ہر ممبر کی مزاج پرسی کرتی نظر آتی ہیں۔عمران اسلم صاحب کے بارے میں اکثر مشکوک رہتا ہوں کہیں کسی جاسوس ادارے کیلئے کام تو نہیں کر رہے۔ جب چورنگی میں آتے ہیں خوب ہلا گلا کرتے ہٰیں، خود بھی ہنستے ہیں دوسروں کو بھی ہنساتے ہیں لیکن پھر یوں غائب ہوجاتے ہیں کہ جیسے جمعہ کے دن کسی کے جوتے چوری ہوجائیں تو کچھ دنوں کیلئے مسجد تبدیل کر لیتا ہے۔ ابو عبد اللہ اپنی بذلہ شوخیوں کے ہمراہ نظر آتے ہیں تو محمد ناز صاحب اپنی فکری پوسٹنگ کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔ مہتاب عزیز صاحب اور ندیم صاحب اپنی سنجیدہ تحریروں کے ساتھ نظر آتے ہیں تو شاہ جی اپنے مخصوص انداز میں لطافت کا احساس بکھر اتے نظر آتے ہیں۔بھائی صاحب کی رعب دار شخصیت کا چرچا تو بہت سنا ہے لیکن یوں لگتا ہے زیادہ وقت ممبران پرایجنسیوں والا کام کرتے ہیں۔چورنگی کا ہر فرد اگر نفاست پسند ہے تو تو منکسر مزاج بھی۔غلطیوں کی نشان دہی بھی کی جاتی تو اس میں اصلاح کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ یہاں رنگ نسل اور مذہب کے متنازعہ روپ اور ان کی نفسیات کے تضادات پر بحث نہیں کی جاتی۔انسان ایک مضطرب اور بے چین روح ہے جو ہمیشہ تلاش کی جدوجہد میں سرگردوں رہتا ہے۔ اور چورنگی ایسے ہی تشنہ لب انسانوں کی آماجگاہ ہے۔ تہذیب کے تقاضوں کو جتنا چورنگی میں پورا ہوتا دیکھا ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔بے تکلفی کا ایک ایسا ماحول ملتا ہے کہ پہلی بار داخل ہونے والے کو ذرا سی بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔لیکن مجال ہے کبھی کسی نے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑا ہو، کبھی کسی نے تہذیب سے گری ہوئی کوئی بات کی ہو۔ منشور کی بات ہورہی تھی تو چورنگی کا ہر ممبر خود ایک منشور ہے وہ اتنی ذہنی بالیدگی رکھتا ہے کہ وہ اس فورم کی رویات اور اس کے ماحول کو برقرار رکھ سکے۔ یہاں ضمیر پر یقین رکھا جاتا ہے۔ ان کی ایک نظریاتی اساس ہے، اوران کیلئے فورم کا تعارف ہی اس کا منشور ہے۔ اس فورم پر لکھنے کو تو ابھی بہت کچھ ہے لیکن میں چورنگی کو ایک انقلاب کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں ۔ ایک قلمی اور ایک ذہنی انقلاب۔جو انسان کی جینے کی سطحی سوچ کو تبدیل کر دے گی۔ ہوس اقتدار اور نمود ونمائش سے بہت دور لے جائے گا ۔ ذہنی انقلاب۔یہ میری ذہنی اختراع ہوسکتی ہے، کسی دیوانے کا خواب بھی ہو سکتا ہے لیکن مجھے اس اختراع پر یقین ہے کیونکہ یہ میرے وجدان کی آواز ہے اور میرا وجدان مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
(یہاں پیش کی گئی ساری رائے میری ذاتی ہے، ممبران کو اختلاف کا حق حاصل ہے)

No comments:

Post a Comment