Thursday, April 4, 2013

جنت کی پامالی


آخری بار جب قلم ہاتھ میں پکڑا تو مجھے یوں لگا تھا جیسے میرے قلم میں لکنت ہے یا میرا ذہن کسی الجھن کا شکار ہے جو میری سوچ کو کسی ایک نقطے پر رکنے نہیں دیتا۔میری توجیہات اور دلائل اس قدر لغزش کا شکار ہیں کہ میں دوسروں تک اپنے خیالات کا اظہار کیا کروں ؟میں تو خود الجھن کا شکار ہو  جاتا ہوں۔ابھی میں اسی ذہنی کشمکش میں تھا کہ ایک ایسے واقعے کا گواہ بن گیا جس نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔۔ اور میں اپنے اندر  یوں بکھر کر رہ گیا کہ کئی دنوں تک اپنی ہی ذات سمیٹنے میں لگا رہا۔میرا ذہن تھکاوٹ، اور بے بسی کی ایک نیم جاں کیفیت میں ڈھل گیا۔میں جذبات سے مغلوب ہو رھا تھا اور زندگی کو سطح استوا پر کھڑا رکھنے کیلئے سارے حیلے بیکار اور ساری دلیلیں بے معنی ثابت ہو رہی تھیں۔کچھ حقائق اس قدر پراگندہ ہوتے ہیں کہ ان کی کرواہٹ انسان کو فرار کے رستے پر ڈال دیتی ہے لیکن میں اتنا مضبوط نہیں ہوں کہ اپنی آگہی کے شعور کو دیر تک برداشت کرتا رہتا ،بس اپنے اندر ہی اندر بہتا رہا ، اپنے ضمیر کو لگے ناسور کو رستا دیکھتا رہا۔ کچھ حقیقتیں اس قدر متعفن ہوتی ہیں کہ وہ قلب وشعور کو ماؤف کر دیتی ہیں ا ور جب جذبات کی شدت کا بہاؤ کچھ تھما تو کاغذ قلم لیکر بیٹھ گیا ہوں۔
محمدی بیگم دس کی سال کی تھی جب ہندستان کی تقسیم ہوئی تھی۔ مسلمانوں کو اگر اپنے وجود کی بقا کیلئے ایک الگ خطے کی ضرور ت تھی تو ہندوؤں کے نزدیک اس زمین کی تقسیم گاؤ ماتا کو دوحصوں میں کاٹنا تھا۔لیکن اس سارے کھیل میں کوئی گاؤ ماتا کٹی یا نہیں لیکن سرحد پار کرتے ہوئے اگر محمدی بیگم اپنی ماں کی ممتا سے محروم ہوگئی تھی وہیں پر اپنے بہت سے رشتوں کو اس نے سرحد کے آر پار کہیں کھو دیا تھا۔ کم عمری میں ہی شادی ہو گئی ۔ جوانی اپنی غربت سے لڑتی اور اپنے خاوند کی عزت و آبرو کی حفاظت میں گزر گئی۔ دو بیٹوں کی نعمت سے اللہ نے نوازا۔ جوانی تو جیسے تیسے گزر گئی لیکن جب بیٹے جوان ہوئے تو بڑا بیٹا دبئی چلا گیا تو اللہ نے پیٹ بھر کر کھانے کا کا موقع دے دیا۔چھوٹے بیٹے نے بھی جس کے پاس وہ رہ رہی تھی ایک سکول بنا لیا اور  یوںپاکستان آکر محمدی بیگم نے بھی خوشحالی کا منہ دیکھ لیا۔اپنے خاوند کی وفات کے بعد گھریلو آسودگی کے باوجود وہ حالات کا تنہا مقابلہ نہ کر پائی اور پہلی بار جب وہ بلڈ پریشر کے ساتھ میرے پاس آئی تو معائینہ اور ٹسٹوں کی رپورٹ کے بعد جب میں نے اس کے بیٹے کو نصیحت کی کہ اماں کو توجہ دیا کریں کیونکہ بظاہر ان کو کوئی بیماری نہیں ہے لیکن اعصابی کھنچاؤ کی وجہ سے ان کو آج  بلڈ پریشر ہوا ہے تو خدانخوستہ کوئی مستقل نو عیت کا عارضہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔۔ انہوں نے اماں کو کوئی دوا مسلسل استعمال کروائی یا نہیں ، ان کی نگہداشت میں کوئی اضافہ کیا یا نہیں، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ میرے پاس جب بھی آئیں ان کا بلڈپریشر ہمیشہ زیادہ ہوتا۔ بار بار دوائی بھی تبدیل کی۔ ۔ مزید مشورے کیلئے دوسرے ڈاکٹروں کے پاس بھی گئے۔ ان کے نزدیک بھی ذہنی تناؤ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اور میں ان کے ماضی اور ان کے خاوند کی موت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا رہا۔ ایک رات جب اماں کے اچانک بے ہوش ہونے کی خبر آئی تو معلوم ہوا بلڈ پریشر کی زیاد تی کی وجہ سے فالج ہوگیا ہے ۔ ابتدائی طبی ا مدادکے بعد ان کو فیصل آباد ریفر کر دیا ۔ ز ندگی تو بچ گئی لیکن ہمیشہ کیلئے بستر پر لگ گئیں۔گاہے بھگاہے ان کو دیکھنے ان کے گھر جانا ہوتا تو ان کی ابتر حالت ، بدن پر رِستے زخم اور بستر سے بلند ہوتا تعفن ، دل یہ سب دیکھ کر بہت پریشان ہوتا۔ لیکن نصیحت کے سوا کیا کر سکتا تھا۔ اس دن میں دوپہر کو کلینک پر ہی تھا جب ان کے بیٹے کا فون آ یا اور مجھے فوراً گھر آنے کی درخواست کی۔ جب میں گھر پہنچا ہوں تو مجھے اندازہ ہو کہ وہ تو کئی گھنٹے پہلے انتقال کر گئیں تھیں۔ جب میں نے انا للہ وانا والیہ راجعون پڑھا اور بتا یا کہ ان کی سانس رکے کافی دیر ہوگئی ہے تو ان کا بیٹا گیا اور ایک چیک بک نکال کر لایا اور اماں کے انگوٹھے پر سیاہی لگا کر نشان ایک چیک کے اوپر لگا لیا۔ میری حیرت سے پھٹی آنکھوں کو دیکھ کر کہنے لگا ۔ آپ کو تو پتا ہے بینک کے کاؤنٹ سے مرنے کے بعد پیسے نکلوانا کتنا مشکل کا م ہے۔ خاندانی زمینوں کا حصہ اماں کو ملا تھا ،اب ایک لاکھ کی خاطر کون بینکوں کے نخرے برداشت کرتا پھرے۔ میں جو ہمیشہ انسانیت کی بلندیوں کا ورد کرتا رہتا تھا ۔سناٹے میں آگیا۔ یوں لگا کسی سرکش گھوڑے نے مجھے اپنی پیٹھ سے پٹخ دیا ہے۔میں اعتماد کی چٹان سے جو گرا ہوں تو لڑھکتا ہی چلا گیا ہوں۔مجھے لگ رہا تھا کہ میں موم کا مجسمہ ہوں جو شدت جذ بات سے پگھلا جا رہا ہے ۔مجھ سے کسی نے تپتی دھوپ میں سائباں چھین لیا ہو ۔منجھدھار کے بیچ پہنچ کر چپو کسی نے چھین لئے ہوں ۔ ا سے میں حقیقت پسندی کہوں یا بے حسی سے تعبیر کروں ۔ لالچ کہوں یا معاشرے کی زوال پذیر روایات کو الزام دوں۔یا ان اقدار کا ماتم کروں جن کو ہم نے فراموش کر دیا ہے۔میں اسے کچھ بھی کہوں ،رشتوں کو لگی ٹھیس کو میں کیسے سنبھال سکوں گا۔ میرا وجود تو ریزہ ریزہ ہوگیا ہے میں خود کو کیسے سمیٹوں خود کیسے سنبھالوں گا۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنی والدہ کی شکایت کی کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس زمانے میں وہ تجھے نو ماہ تک پیٹ میں لیے پھرتی رہی کیا اسوقت بھی وہ بدمزاج تھی؟اس نے پھر یہی کہا کہ میری ماں بدمزاج ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب وہ تیرے لیے ساری ساری رات جاگتی تھی اور راتوں کو اٹھ کر تجھے دودھ پلاتی تھی تو اسوقت بدمزاج نہیں تھی؟اسکے بعد وہ کہنے لگا کہ میں اسکی محنت و مشقت کا بدلا اتار چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تو نے کیسے بدلا اتار دیا؟اس نے جواب دیا میں نے اسے اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے۔یہ سن کر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تو  ماں کو اس تکلیف کا بدلا بھی دے سکتا ہے جو اس نے درد زہ کی صورت میں برداشت کی تھی؟ سیکڑوں صفات وخصوصیات اور مجاہدوں ا وریا ضتوں کی خوشبووٗں سے ماں کا خمیر تیار ہوتا ہے اور جب وہ ماں زمین پر اپنے پاؤں رکھتی ہے تو اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی جاتی ہے۔ اسی ماں کے متعلق حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری ماں کی نافرمانی حرام فرما دی ہے۔ماں جس کی پیشانی میں نور  ہے تو  آنکھوں میں ٹھنڈک ، جس کی باتوں میں محبت ہے تو دل میں رحمت ، جس کے ہاتھوں میں شفقت ، جس کے پیروں میں جنت اور جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا ۔یہاں تک کہ محبت اور پیار کے سارے استعارے لفظ ماں پر آکر ختم ہو جاتے ہیں اور پھر اس کی عظمت کا اعتراف خالق  کائنات نے مخلوق سے اس طرح کرایا کہ خدا کی بندگی اور رسول کی پیروی کے بعد اطاعت وفر مانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا درجہ اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ ماں ہے۔ وہ ماں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صرف اس کو محبت بھری نظرسے دیکھ لینے سے حج کا ثواب مل جا تا ہے۔وہ ماں جس کے بارے میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرماتے ہیں اگر میری ماں زندہ ہوتی، میں نماز میں اللہ کے حضور کھڑا ہوتا۔ ماں آواز دیتی میں نماز چھوڑ کر دوڑ کے ماں کے پاس جاتا اور دنیا والوں کو بتاتا کہ ماں کی عظمت کیا ہوتی ہے ماں  محض ایک لفظ نہیں بلکہ محبتوں کا مجموعہ ہے۔ خلوص کا نہ خشک ہونے والا چشمہ، پیار کے اظہار کا پہلا مجموعہ۔ماں ،کا لفظ سنتے ہی ایک ٹھنڈی چھاؤں اور ایک تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے ۔صحرا کی تپتی ریت پر بادلوں کا سائباں محسوس ہوتا ہے ۔ ایک عظمت کا پیکر اور سب کچھ قربان کردینے والی ہستی کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ماں کے لفظ میں وہ مٹھاس ہے کہ اپنائیت کے احساس میں گدگدی کرتی سوچ کی وادیوں میں ایک ہلچل مچا دیتی ہے۔ انسانی رشتوں کو پیمانوں پر کھڑا کردیں تو سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی ماں کی ہے۔ اس کائینات پر اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں تو ماں اس کی عطا کردہ نعمتوں میں افضل ترین نعمت ہے۔ یہ ہماری روایات کا تقاضا بھی ہے اور ہماری تہذیبی اور مذہبی ضرورت بھی اور ہماری خواہش بھی کہ ہر دن کا آغاز ماں کی دعاؤں کے سائے تلے ہو۔ قرآن حکیم اور دوسری تمام الہامی صحیفوں میں ماں کا تقدس سب کی مشترکہ میراث ہے۔۔کسی نے سچ کا تھا دنیا کی کوئی بھی جنت ماں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ ماں کی ہستی کا جو نقشہ اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے رضا سرسوی صاحب نے کھینچا ہے اس کے بعد الفاظ ختم ہو جاتے ہیں


موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں 
تب کہی جا کر رضا تھوڑا سکون پاتی ہے ماں 

فکر میں بچوں کی کچھ اس طرح گْھل جاتی ہے ماں 
نوجواں ہوتے ہوئے بوڑھی نظر آتی ہے ماں 

روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے 
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں 

ہڈیوں کا رس پلا کر اپنے دل کے چین کو 
کتنی ہی راتوں میں خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں 

جانے کتنی برف سی راتوں میں ایسا بھی ہوا 
بچہ تو چھاتی پے ہے گیلے میں سو جاتی ہے ماں 

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول 
آنسوں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں 

فکر کے شمشان میں آخر چتاؤں کی طرح 
جیسے سوکھی لکڑیاں ، اس طرح جل جاتی ہے ماں 

اپنے آنچل سے گلابی آنسوں کو پونچھ کر 
دیر تک غربت پے اپنی اشک برساتی ہے ماں 

سامنے بچوں کے خوش رہتی ہے ہر ایک حال میں 
رات کیوں چھپ چھپ کے لیکن اشک برساتی ہے ماں 

کب ضرورت ہو میری بچے کو ، اتنا سوچ کر 
جاگتی رہتی ہیں آنکھیں اور سو جاتی ہے ماں 

مانگتی ہی کچھ نہیں اپنے لیے اللہ سے 
اپنے بچوں کے لیے دامن کو پھیلاتی ہے ماں 

دے کے اک بیمار بچے کو دعائیں اور دوا 
پینتی پے رکھ کے سر قدموں پے سو جاتی ہے ماں 

گر جوان بیٹی ہو گھر میں کوئی رشتہ نا ہو 
اک نئے احساس کی سولی پے چڑھ جاتی ہے ماں 

ہر عبادت ہر محبت میں نیہا ہے اک غرض 
بے غرض بے لوث ہر خدمات کو کر جاتی ہے ماں 

زندگی بھر چنتی ہے خار ، راہ ذیست سے 
جاتے جاتے نعمت فردوس دے جاتی ہے ماں 

بازوں میں کھینچ کے آجائے گی جیسے کائنات 
ایسے بچے کے لیے بانہوں کو پھیلاتی ہے ماں 

زندگانی کے سفر میں گردشوں کی دھوپ میں 
جب کوئی سایہ نہیں ملتا تو یاد آتی ہے ماں 

پیار کہتے ہے کسے اور مامتا کیا چیز ہے 
کوئی ان بچو سے پوچھے جن کی مر جاتی ہے ماں 

صفحہ ہستی پے لکھتی ہے اصول زندگی 
اس لیے اک مکتب اسلام کہلاتی ہے ماں 

اس نے دنیا کو دیے معصوم رہبر اس لیے 
عظمتوں میں ثانی قرآن کہلاتی ہے ماں 

گھر سے جب پردیس جاتا ہے کوئی نور نظر 
ہاتھ میں قرآن لے کر در پے آجاتی ہے ماں 

دے کے بچے کو ضمانت میں اللہ پاک کی 
پیچھے پیچھے سر جھکائے در تک جاتی ہے ماں 

کانپتی آواز سے کہتی ہے بیٹا الوداع 
سامنے جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں 

جب پریشانی میں گھر جاتے ہیں ہم پردیس میں 
آنسوں کو پونچھنے خوابوں میں آجاتی ہے ماں 

دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں 
ریت پر مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں 
مرتے دم بچہ نا آ پائے اگر پردیس سے 
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پر رکھ جاتی ہے ماں 

باب مر جانے پے پھر بیٹے کی خدمت کے لیے 
بھیس بیٹی کا بدل کر گھر میں آجاتی ہے ماں 

ہم بلاؤں میں کہیں گھرتے ہیں تو بے اختیار 
خیر ہو بچے کی ، کہ کر در پے آجاتی ہے ماں 

چاہے ہم خوشیوں میں ماں کو بھول جائیں دوستو ! 
جب مصیبت سر پے آتی ہے تو یاد آتی ہے ماں 

دور ہو جاتی ہے ساری عمر کی اس دم تھکن 
بیاہ کر بیٹے کو جب گھر میں بہو لاتی ہے ماں 

چین لیتی ہے وہی اکثر سکون زندگی 
پیار سے دلہن بناکر جس کو گھر لاتی ہے ماں 

پھر لیتے ہیں نار جس وقت بیٹے اور بہو 
اجنبی اپنے ہی گھر میں ہے بن جاتی ہے ماں 

ہم نے یہ بھی تو نہیں سوچا الگ ہونے کے بعد 
جب دیا ہی کچھ نہیں ہم نے تو کیا کھاتی ہے ماں 

ضبط تو دیکھوں کہ اتنی بے رخی کے باوجود 
بد دعا دیتی ہے ہرگز اور نا پچھتاتی ہے ماں
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment