Thursday, April 11, 2013

دوا

میں عام طور پر شادیوں کی تقریب میں شرکت کرنے سے اجتناب کرتا ہوں ،کیونکہ وہاں پر ایک طرف وقت کا بے دریغ ضیاع ہوتا ہے تو دوسری طرف وقت گزاری کیلئے چغلیوں اور غیبت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور اس پر مزید رکاوٹ میرا پیشہ ہے کہ جیسے ہی کسی کو معلوم ہوجائے کہ ڈاکٹر ہیں تو بس پھر کسی کو مشورہ درکار ہے ،تو کوئی ان سے نالاں نظر آتا ہے۔ کسی کو اپنے عزیز کی بیماری کا معمہ حل کرنا ہے تو کوئی ڈاکٹری کو مقدس پیشہ قرار دے کر اس کی اہمیت پر روشنی ڈال رہا ہوتا ہے۔ کوئی ہیپاٹائٹس کے بارے میں پوچھ رہا ہے تو کوئی ادرک اور لہسن کے فوائد پر مشورہ مانگ رہا ہے۔ اسلئے جونہی کوئی دعوت نامہ ملے تو کوشش ہوتی ہے کہ کوئی معقو ل بہانہ مل جائے ۔ یا پھر عین ٹائم پر پہنچ پہنچا جائے۔لیکن کل ایک ایسے ولیمے میں شرکت کرنا پڑی جس میں جانا بھی ضروری تھا اور اور وہ وقت سے کچھ دیر پہلے بھی۔ جس میز پر مجھے جگہ ملی اس پر سیاسی بحث ہو رہی تھی ایک شخص پیپلز پارٹی کا حامی تھا دوسرا مسلم لیگ کی حمائیت میں ہلکان ہو رہا تھا۔ اور ایک نے تو عمران خان کو اگلا وزیر اعظم بھی قرار دے دیا تھا۔ اس گرما گرم بحث میں ، میں نے طاہر القادری کی سیٹ سنبھالتے ہوئے جب ساری جماعتوں کے خلاف بولنا شروع کیا تو کچھ ہی دیر بعد سیاسی گرمی کچھ کم ہو گئی۔اور سیاسی وابستگیوں کی شدت میں کچھ کمی ہوگئی۔ میرے ساتھ ایک بزرگ بیٹھے تھے ۔ پوچھنے لگے کیا کام کرتے ہیں؟ کسی بھی نئی بحث کے شروع ہونے کے ڈر سے کہہ دیا، کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرتا ہوں ۔ بابا جی میرا جواب سن کر بڑبڑائے، اچھا تو شاعر ہیں؟ میں مسکرا دیا اور کوئی جواب نہ دیا۔ کھانے میں کچھ دیر تھی۔ جب سیاسی بحث میں کچھ وقفہ آیا  تو بابا جی انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولے، ہمارے علاقے میں ایک بہت بڑا حکیم رہتا تھا۔ لوگ دور دور سے علاج کروانے اس کے پاس آتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کے پاس دائمی قبض کی شکائیت لے کر آیا ۔ حکیم صاحب نے ایک پڑیا دی اور کہا کہ اس کو روزانہ دودھ کے ساتھ ا ستعمال کرو انشاللہ افاقہ ہو جائے گا۔ کچھ دن بعد وہ آدمی دوبارہ حکیم صاحب کے پاس گیا اور بتایا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوا تو حکیم صاحب نے کچھ حیرت کا اظہار کیا اور ایک اور پڑیا بنا کر دی ۔کہ یہ ایک مجرب نسخہ ہے اس کےاستعمال کے بعد آج تک کسی مریض نے شکائیت نہیں کہ اسے آرام نہیں آیا۔ لیکن حکیم صاحب کی آنکھیں پھٹنے کو آگئیں ۔ جب چند دن بعد وہ آدمی دوبارہ اپنی شکائیت کے ساتھ حکیم صاحب کے مطب پرموجود تھا ۔حکیم صاحب اٹھے اور ایک مرتبان اٹھایا اور اس میں سے دوا نکال کر دی اور کہا انشاللہ آج کے بعد یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوگی۔ یہ ہمارا صدیوں پرانا خاندانی نسخہ ہے جو ہمارے بزرگ شاہی دربار میں استعمال کرتے تھے ۔ لیکن آج کئی سالوں بعد اس کی ضرورت پڑی ہے۔ لیکن چار دن ہی گزرے تھے کہ حکیم صاحب اس آدمی کو دیکھ کر قریب قریب بے ہوش ہو گئے۔ جب کچھ ہوش آیا تو پوچھا کہ تم کرتے کیا ہو؟ تو اس آدمی نے جواب دیا میں شاعر ہوں۔ حکیم صاحب نے جیب سے کچھ پیسے نکال کر اسے دیتے ہوئے کہا۔ یہ لو پیسے جا کر کچھ کھانا کھاؤ، پیٹ میں کچھ جائے گا تو قبض خود ہی ٹھیک ہوجائے گی۔ اور ہماری میز کشت زعفران بن گئی۔ کھانا لگ چکا تھا ۔اور سب اس پر ٹوٹ پڑے ۔ لیکن بابا جی کا قصہ سن کر مسکراہٹ تادم تحریر میرے ہونٹوں سے نکل نہیں سکی
میم۔ سین

1 comment: