Sunday, April 7, 2013

ناتمام


رانی مر گئی۔ اسے مر ہی جانا تھا۔آج نہ مرتی تو پھر زندگی ناسور بن کر اس کا پیچھا کرتی رہتی۔ پچھتاوے ساری عمر کی پرچھایاں بن کر اس کا تعاقب کرتی رہتیں۔احساس ندامت کی بیتے لمحے ، بے جان خوہشوں کا آلاؤ، تعفن پھیلاتی یادیں، سایہ بن کر اس کے وجود کا حصہ بن جاتیں۔ اور وہ زندہ رہ کر بھی شائد زندہ نہ رہتی۔ 
رانی چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی۔ ماں لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارا کرتی تھی اور باپ ہمیشہ کسی مزدوری کی تلاش میں سر گرداں رہتا تھا۔رانی کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جب اس کی ماں پہلی بار اسے ہمارے گھر یہ کہہ کر لائی تھی کہ اس کو آپ کے گھر چھوڑے جا رہی ہوں ۔آپ کے گھر کا کام بھی کر دیا کرے گی اور آپ سے کچھ پڑھ بھی لے گی تا کہ پانچویں جماعت پاس کر لے۔
وہ ٹشو پیپر کی طرح کی لڑکی تھی جس کام میں لگایا اس میں لگ گئی۔ برتن پکڑائے تو ریت ،صابن اور اس کے ہاتھ کا مانجھا ہوتا۔گھر کی صفائی کا کہا تو اس کے ہاتھ میں جھاڑو ہوتا اور گھر کا صحن اور کمروں کے فرش ہوتے۔ کسی چیز کو جھاڑنے کا کہا تو پھر گرد کا آخری ذرہ جب تک نکل نہ جاتا وہ اپنی جگہ سے نہیں ہٹتی تھی۔ 
وہ ایک کورا کاغذ تھی جس پر جو بھی لکھ دیا جاتا وہ اسے قبول کر لیتی تھی۔وہ ایک ایسی لڑکی تھی جس میں قوت مدافعت نہیں تھی، موم کی گڑیا، جیسے کسی نے چاہا ڈھال لیا۔ ظالم سماج نے جو کچھ اس کے کورے ذہن پر لکھا وہ اس قدر بھیانک تھا کہ اس کے منحوس سائے نے پورے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 
کچھ ٹہنیاں اتنی لچک دار ہوتی ہیں جن کو جس طرف موڑا جائے وہ مڑجاتی ہیں اگراس کو بلندیوں پر چڑھانا چاہو تو آسمان تک لے جاؤ۔اگر ان کو سمیٹ نہ سکو تو وہ اس قدر الجھ جاتی ہیں کہ ساری عمر بھی سنوارنا چاہو تو سنوار نہ سکو گے۔ کچھ ایسا ہی ہوا اس کے ساتھ بھی۔
گھر میں پہلا موبائل آیا تو گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ اسی کی پاس رہتا۔ سارا دن اس پر گیم کھیلتی ، گانے سنتی اور تصویریں کھینچتی رہتی۔ اور پھر سانپ کا کھیل کھیلتے کھیلتے وہ زندگی کے کچھ سربسیدہ رازوں تک پہنچ گئی۔ وہ راز ، جن کو کھولنے کی اس کی ابھی عمر نہیں تھی لیکن معاشرے کے بے رحم تھپڑوں نے اسے گھوڑے کی ننگی پشت پر سواری کرنا سکھا دیا تھا۔ اور وہ ایلس کے ونڈر لینڈ کے خوابوں کے راستوں میں یوں کھو گئی کہ اب وہ تھی اور کسی ہولناک جزیروں کو جاتے راستے۔ کسی کو نہیں خبر کس طرح اس کی رسائی ان نمبروں تک ہو گئی جن کے اوپر ہوس کے پجاری بیٹھے تھے۔
وہ اس علم کی جستجو میں سرخ لکیر عبور کرتی رہی جس کی حقیقت تو تھی لیکن جس کا احساس، شعور کو نہیں تھا، اس نے اپنے تئیں وہ دنیا دریافت کر لی تھی جس کے بارے میں ،اس کے اندازوں کے مطابق ابھی کسی کو اس کا ادراک نہیں تھا۔
جہاں غربت اور افلاس کی ندیاں بہتی ہوں اور جذبات اپنی انگڑائیاں لے رہے ہوں وہاں پرمحبت کا زہر میٹھی زبان میں رکھ کر پیش کیا جائے تو نئی دنیا کے تعاقب میں نکلے پرندوں کا بھٹک جانا غیر فطری نہیں ہے۔ اگر یہ بات پہلے معلوم ہوجاتی کہ بڑی بڑی آنکھوں والی حور صفت رانی اپنے گھر کی جنت چھوڑ حسن صبا کی جنت کے خواب دیکھنے لگ گئی ہے تو شائد وہ دن دیکھنے کی نوبت ہی نہ آتی ،جب وہ دودھ لینے گجروں کے ڈیرے گئی تھی ۔ اور وہاں پر گھات لگائے کچھ شکاری اس دن ہوس کی بھوک میں بلبلا رہے تھے۔آج وہ صرف موبائل پر اس کی آواز سن کر بہلنا نہیں چاہتے تھے بلکہ وہ اس آگ کو بجھانا چاہتے تھے جو موبائل پر لیٹ نائٹ پیکجز نے ایک عرصے سے بھڑکا رکھی تھی۔ 
کچھ لوگوں کا خیال ہے رانی نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ اس کو بے ہوش حالت میں ریل کے سامنے پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن رانی کا قتل ہوا تھا یا اس نے خودکشی کی تھی ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ کیا روح سے خالی جسموں کو بھی کسی نے ڈھانپا ہے؟ کیا جن کے سروں سے عفت کی چادر اتر جائے ان کو بھی کوئی گھروں میں داخل ہونے دیتا ہے؟ کیا رونے سے، سسکیاں لینے سے ، ماتم سجانے سے ، وہ گھڑیاں واپس آ سکتی ہیں جن کو ہم نے کھو دیا ہے۔زمانے کو گالیاں دینے سے یا قاتلوں کو بددعائیں دینے سے کیا مردے لوٹ آئیں گے؟ یا عصمت کے لٹے قافلوں کی واپسی ممکن ہو سکے گی؟
جب آسمان پر بادل پہرے دے رہے ہوں تو اپنے سامان کی حفاظت خود کر لینی چاہیئے ، کون ذی شعور انسان انتظار کرتا ہے ؟ بادل کب چھٹیں گے ؟ ، بوندیں کب رکیں گی؟ ۔اس وقت تک تو سب کچھ بہہ چکا ہو گا ۔ لیکن المیہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں سے ہماری ذمہ داریوں کا آغاز ہوتا ہے۔جہاں سے ہمارے فرائض کا امتحان شروع ہوتا ہے۔ جہاں سے رشتوں کا بوجھ بانٹا جاتا ہے۔۔
جب تیز ہوا میں پھولوں سے بھری ڈالیاں جھومنے لگتی ہیں تو مالی کی نیندیں اڑ جاتی ہیں لیکن ہم کیسے نگہبان ہیں کہ ہمارے ارد گرد خوف اور درد کی داستانیں بکھری پڑی ہیں اور ہم پھر بھی اپنی حد سے نکلتی خواہشوں کی حدت کو محسوس نہیں کر پا رہے۔
اگر غربت اور مفلسی انسانی عقل کو مار دیتی ہے تو وہیں پر اندھا دھند اعتماد بھی انسان کو بند گلیوں کو جانے والے رستوں پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہاں تو ہر روز حوا کی بیٹیاں سپنوں کے تعاقب میں اپنے خاندان کی عزت و ناموس کو گروی رکھ رہی ہیں۔ انسانوں کے بھیس میں درندے اپنے شکار کے پیچھے دبے قدموں یوں پیچھا کر رہے ہیں کہ کسی کو خبر ہی نہیں ہوتی، کب آ شیانہ لٹ گیا۔ 
الزام ان بے لگام معاشرتی قدروں کا دیا جائے جو میڈیا کے ہاتھوں اپنی شناخت کھو رہی ہیں یا یا ذ مہ دار ی ا ن والدین پر ڈالی جائے جو مو بائل سرہانے رکھ کر سوتی اولاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہر وقت بجتے میسجز اور رات کو دیر تک سکرین سے نکلتی رو شنیوں کے زہر اآلود اثرات کو محسوس نہیں کر پاتے۔ فون کی بجتی گھنٹیوں پر بے چین ہونے والی نسل کو اس کے والدین محسوس نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟۔ غیروں کی ثقافت کو اپنے ڈرائینگ روموں میں سجا نے والے گھرانے ، ان کے اثرات کو کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں زمانہ بہت تیز ہوگیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو ہم وقت کے ساتھ بدلتے تقاضوں او ان کی نئی ضروریات کو محسوس کرنا کب سیکھیں گے؟۔ جب کوئی درخت بہت تیزی سے شاخیں نکال رہا ہو تو ان کو سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اگر ان کو بروقت سہارا نہ دیا جائے تو وہ غلط رخ اختیار کر لیتی ہیں۔ اس تیز رفتار زمانے میں ہم خواب خرگوش کے مزے اڑاتے اپنی جملہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے رہے تو سڑک پر مداری کا تماشہ دیکھتے ہوئے کسی دن ہماری اپنی جیب کٹ چکی ہو گی۔
میم۔سین

No comments:

Post a Comment