Thursday, December 27, 2012

میّت

’’ جب میرے ابا یہ کام کرتے تھے تو حالات اتنے اچھے نہیں تھے۔آبادی کم تھی اور لوگ بھی کم مرتے تھے۔ کئی کئی دن ہمارے گھر فاقہ رہتا تھا۔جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو سارا دن قبرستان میں بیٹھے کھیلتے رہتے اور قبر ستان کی طرف آنیوالے ہر شخص کو کسی نئے مرنے والے کا عزیزسمجھ کر، کام آیا، کام آیا کا نعرہ لگاتے ،اس کی طرف دوڑ لگا دیتے۔کام آیا تھا یا نہیں ہماری یہ دوڑ دھوپ ہمارا کھیل بن جاتی تھی۔اب تو اللہ کا بڑا فضل ہے۔ آبادیاں بڑھ گئی ہیں اورلوگ اتنے مرنے لگے ہیں کہ ہم میّت کے آنے کا انتظار ہی نہیں کرتے۔ صبح آکر دو چار قبریں کھود ڈالتے ہیں۔ اور جب گاہک آتا ہے تو اس کو پسند کروا دیتے ہیں ہیں اور جگہ کے لحاظ سے پیسے وصول کر لیتے ہیں۔‘‘اللہ بخش بولتا چلا گیا۔اللہ بخش مقامی قبرستان میں گورکن ہے، ابھی تھوری دیر پہلے کسی موٹر سائیکل والے سے ٹکرا کر چوٹیں لگوا کر میرے کلینک پہنچا تھا۔بستیوں سے ہٹ کر رہنے والے لوگوں کی زندگی کی پراسریت جاننے کا تجسس ہمیشہ ہمارے دلوں میں ہوتا ہے۔مرہم پٹی کروا کر دوائی لکھوانے میرے پاس پہنچا تو میرا تجسس بھی امڈ آیا تھا
’’ قبر کھودنے میں کبھی دشواری بھی آتی ہے؟ جیسے کہانیاں مشہور ہوتی ہیں کہ میں جہاں سے بھی قبر کھودنا شروع کرتا، سانپ نکل آتا تھا یا قبر ڈھے جاتی تھی وغیرہ وغیرہ‘‘ میں نے پوچھا
’’ ہا ہا،ہر وہ جگہ جو انسانی دسترس سے دور ہو۔جہاں آنا جانا لوگوں کا کم ہو۔ وہاں کے بارے میں ایسی آسیبی اور ماورائی کہانیاں بن ہی جاتی ہیں۔ ہم تو جوان ہی اس قبرستان میں ہوئے ہیں۔ ہمارے ساتھ تو کبھی ایسے وقعات نہیں ہوئے۔ ویرانہ ہے، جھاڑیاں ہیں گند ہے۔ ایسی جگہوں پر سانپ تو نکل ہی آتے ہیں۔ باقی رہا قبروں کا منہدم ہونا تو برسات کے موسم میں اکثر ہو جاتا ہے۔ ادھرہم قبر مکمل کر کے ہٹتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہ ڈھے جاتی ہے۔اور کبھی ہم قبر کے اندر ہی ہوتے ہیں تو مٹی اپنی جگہ چھوڑنے لگتی ہے اور ہمیں بار بار مٹی کو سہارا دینا پڑتا ہے۔‘‘ اللہ بخش نے وضاحت کی
’’ جب کوئی بڑا شخص مرتا ہے اس کی قبر کیلئے تو بہت اہتمام کرتے ہو گے‘‘ میں نے پوچھا
اللہ بخش نے ایک قہقہ لگایا اور بولا ’’ڈاکٹر صاحب ، یہ عہدے تم دنیا والوں کے بنائے ہوئے ہیں۔ قبرستان میں سب میّت ہوتے ہیں۔قبرستان سے باہرتم چاہے سیٹھ ہو یا فقیر، قبرستان کے اندر میّت ہوتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ جو کوئی بھی ہے ، ہماری تو روزی ہے وہ چوھدری محمد فاضل مرے یا شیدا نائی‘‘
اللہ بخش تو چلا گیا مگر ایک ان پڑھ شخص کے منہ سے کسی بزرگ لکھاری کے قلم سے نکلے جملے سن کر میں دیر تک سناٹے میں رہا اوریک سوال دیر تک میرے زہن میں گونجتا رہا۔کیا دنیا میں اس سے بڑی حقیقت بھی کوئی ہے ؟کہ،کفن میں لپٹا، قبرستان میں آنے والا ہر شخص صرف میت ہوتا ہے۔
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment