Thursday, December 27, 2012

خوش فہمیاں

مجھے ابن انشاء کی طرح اس بات کا دعوی تو نہیں ہے کہ فیض کی تخلیقات دراصل ان کے خیالات ہیں جو فیض نے ان سے ادھار لئے تھے ۔لیکن مجھے کافی عرصے سے وہم تھا بڑے بڑے جتنے بھی ادیب اور شاعر ہیں وہ میری سوچ سے متاثر ہیں میرے خیالات ان کی ادبی تخلیقات کا سبب ہیں وہ میری سوچ سے متاثر نظر آتے ہیں۔لیکن چند دن پہلے میر تقی میر کو پڑھا تومیرا وہم، یقین میں ڈھل گیا اگرچہ یار لوگوں کو میری اس بات سے اتفاق نہیں ہے لیکن ان کی رائے کو میں زیادہ اہمیت نہیں دے سکتا کیونکہ ان کے ساتھ اور بھی بہت سے معاملات میں اختلاف چل رہا ہے ۔اگرچہ میں میں اپنے یقین کی کوئی خاص وجہ تو بیان نہیں کر سکتا لیکن میرے یقین کی کے لئی یہی کافی ہے کہ میں صاحب کتاب نہیں ہوں۔قلم کا نشتر بہت تیز ہوتا ہے، بڑے بڑے مربی اور بزرگ پیدا کرتا ہے کسی بھی صاحبِ کتاب کو دیکھ لیں اس سے بڑا فقیہء شہراور مجدد کسی نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہ نہ ہوتے تو شائد تاریخ کا دھارہ کہیں اور بہہ رھا ہوتا۔ ساری زندگی مجرا کراؤ اور آخری عمر میں سوانح عمری لکھ ڈالو معلوم ہو گا یہ صاحب نہ ہوتے تو دنیا گناہ کی دلدل ہوتی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہماری فلمی صنعت کی پریاں بھی صاحبِ قلم ہو جائیں تو ہم ان کو بی بی پاک دامن کا درجہ دے ڈالیں اس لئے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں اگر میرے پاس قلم کی تیز دھار ہوتی تو زمانے کو بتاتا کہ دنیائے ادب میں میرا کیا مقام ہے۔ غالب سے میرتک کتنے ادیب اور شاعر میرے محتاج ہیں۔اقبال سے فیض اور فرحت سے سعد تک ، زمانے نے کتنا قرض لے رکھا ہے مجھ سے ۔پہلے پہل میں سمجھتا رہا کہ شائد یہ میرا وہم کہ میں جس بھی مصنف کو پڑھتا ہوں اس کے خیالات میرے خیالات سے اتنے ملتے جلتے کیوں ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ وہ میرے ہی خیالات لے کر شہرت حاصل کر رہے ہیں طبیعت میں عاجزی اور انکساری کا یہ عالم ہے کہ کبھی یہ بات حسد بن کر میرے ذہن میں نہیں آئی۔دوسروں کی غیرت اور عزتِ نفس کا اتنا پاس ہے کہ ذاتی شہرت پر دوسروں کی عزت کو ترجیع دی۔ سو آج سے ہم ہر مصنف کے نام کی جگہ اپنا نام دیکھتے ہیں اور ہرپیش لفظ کو اپنے نام سمجھتے ہیں
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment