Sunday, December 30, 2012

وہ آنکھیں


باباجی باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو میری قوتِ مدافعت جواب دے جاتی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے میں ساری باتیں اپنے اندر جذب کرلوں۔،ایک انجانی سی سرشاری محسوس کرتا ہوں اس تعلق اور اس لگاؤ کا سرور محسوس کرتا ہوں،جو میرے اور بابا کے درمیان ہے۔جب وہ باتیں کرتے ہیں تو میری روح وجد میں آجاتی ہے۔میرا مطالعہ اور میرا مشاہدہ ان کے سامنے ہیچ نظر آتا ہے ۔میں اپنے جسم سے نکل کر کسی پرواز کیلئے بے تاب ہو جاتا ہوں۔مجھے ایسے لگتا ہے کسی نے میرے اندر سے اختلافِ رائے کی حس چھین لی ہوخوشی اور مسرت کے جام انڈیلے جا رہے ہوں۔وہ چپ بھی ہو جائیں تومیرا وِجدان ا ن کی روح و قلب کے تعاقب میں سرگرداں رہتا ہے۔یہ ان کی باتوں کا حسن ہوتا ہے یا لبوں کی گویائی کی تاثیرکہ میرے سارے اصول، قانون اورضابطے دھرے کے دھرے رہ رہ جاتے ہیں۔کسی طلسماتی کشمکش کے تعاقب میں اپنی روح کو مضطرب پاتا ہوں۔بابا کی محفلیں نوازشیں ہیں جس نے بے نیازی کے عرفان سے آشنا کر دیا ہے۔ بابا کی آنکھوں میں ایک حجاب ہے، ایک پراسراریت ہے ۔کون جانے ان پردوں کے پیچھے کیا ہے۔کون سے بھید ہیں مگر بابا کی متجسس آنکھیں بتاتی ہیں کہ و ہ اس حجاب کو بے نقاب کرنے کوتیار ہیں۔ مگر اس کیلئے جو ان بھیدوں کے اسرار جاننے کیلئے بے قرار ہیں،تیار ہیں 
مگر میں جو ہمیشہ تلاش میں بٹھکتا رہتا ہوں،پا لینے کے معنی کیسے جان سکتا ہوں۔میرے لئے تو جو لمحہ گزر رہا ہے وہی زندگی ہے۔،وہ فریب ہے یا حقیقت۔لمحوں کے معنی جاننے کے چکر میں ،زندگی کے یہ حسین پل بیکار گزارنا نہیں چاہتا۔ میں ان لمحوں کو ،بنا ان کے معنی جانے، اپنے اندر سمو لینا چاہتا ہوں۔
میں نے چائے کپ میں انڈیل کر بابا جی کی طرف بڑھا دی۔وہ چائے سے بے خبر دریا سے آتی ٹھنڈی ہوا کے تازگی کواپنی سانسوں میں سمونے میں مصروف تھے۔
میرے چائے کہنے پر چونکے اور میری طرف دیکھا۔ ہماری نگاہیں ٹکرائیں تو میری روح وجد میں آگئی۔جھیل سی پراسرار آنکھیں، چہرے پر ایک بے ساختہ پن ،بچوں کی سی معصومیت۔میرے اندر ایک زبرست خواہش پید ا ہوئی کہ جسکی شدت سے میری روح کانپ گئی۔ مجھے دنیا میں کوئی چیز نہ ملے، میں ساری دنیا سے بیگانہ ہو جاؤں۔مجھے میسر ہو توصرف بابا جی کی قربت، ان کی باتوں کی قربت ،ان کے نام کی قربت۔
’’ نفسیاتی الجھنوں کے سائے میں پلنے والے کردار مکمل کیوں نہیں ہو تے ان کے افکار او ر ان کے کردار میں تضاد کیوں ہوتا ہے؟‘‘ میں نے نظروں کو جھکا لیا اور ان کے جواب کا منتظر رہا۔
 کپ ہاتھ میں پکڑے ،چند گھونٹ پینے کے بعدانہوں نے بہتے پانی پر ایک نظر ڈا لی ا ور کچھ بڑبڑائے، پھر گویا ہوئے
’’ جس تخلیق میں قلبی اور روحانی شعور نہ ہو وہ نامکمل رہتی ہے، وہ ہمیشہ تلاش میں رہتی ہے ۔ان محرومیوں کے متبادل کیلئے جو اس کے اندر کسی کنجینٹل فزیکل ڈیفکٹ 
 کی طرح ہمیشہ کیلئے اس کے وجود کا حصہ بن جاتا ہے۔‘‘
 ’’ اس کا کوئی حل بھی ہوگا؟‘‘ میں نے اپنا کپ ختم کرتے ہوئے پوچھا’’
 یہ اس وقت تک چلتا ہے، جب تک زندگی کی معنویت، منفی رہے گی۔جب تک انتشار زندگی کی پہلی قدر رہے گا۔جب تک معیار کا پیمانہ تم معاشرتی ضرورتوں اور خواہشوں کو دیکھ کر منتخب کرتے رہو گے۔ جب تک ذہانت کا فلسفہ قلب سے نہیں ذہن سے سمجھتے رہوگے۔جب ان دنیاوی معیاروں سے کنارہ کش ہو جاؤ گے تو وہ سب خلا پر ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔
وہ کیا کہے جا رہے تھے میں ان آنکھوں کے پیچھے گہرے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کر رہا تھاکچھ دیر پہلے بچوں کی طرح گول گول آنکھیں اب مجھے کسی بیقرار روح کی بے عقیدہ آنکھیں نظر آئیں۔ مجھے لگا یہ آنکھیں نہیں ہیں تشنہ کاموں کی پیاس ہے کسی عفریت کے خوف میں روح کی بالیدگی کی تلاش میں ہیں۔کسی فاتح کی زہنی مسرت کا خمار ہیں۔یہ آنکھیں نہیں مہیب غار ہیں، یہ آنکھیں نہیں کائینات کا اسرار ہیں۔ناقابلِ فہم ہیں بے پایاں وسعتیں ہیں،نہ ختم ہونے والے فاصلے ہیں۔امنگوں او ر ولولوں کے سفر میں پہلا سنگِ میل ہیں۔یہ آنکھیں نہیں ہیں انکشافات کا پہلا قدم ہیں۔زہنی بالیدگی کا انتہا اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔یہ آنکھیں نہیں ہیں لعزشِ ماہ وآفتاب ہیں جو زندگی کی معنویت ڈھونڈ ھ رہی ہیں۔انسانی مقام کو ارفع و اعلی دیکھنا چاہتی ہیںیہ آنکھیں نہیں ہیں جمالیات اور تخلیقات کی علامت ہیں۔ گوشہ عافیت کا شعور ہیں جنوں کی تسخیر ہیں مسرتوں کا جزو ہیں۔۔۔
اگر بابا جی نے مجھے اٹھنے کا نہ کہا ہوتا تو میں شائد ان آنکھوں کی پراسرایت کے بھید جاننے کیلئے ایلس ان ونڈرلینڈ کے ایڈونچر کا آغاز کر چکا ہوتایا ہیپناٹائز ہو کر جنگلوں میں نکل جاتا یا کسی گیان میں لگ جاتا یا کسی ان دیکھے سفر پر نکل جاتا
 ’’ چلو پانی کے بہاؤ میں اس کا ساتھ دیں‘‘ اور بابا جی اٹھ کر چل پڑ ے اورمیں ان کے پیچھے ہولیا ، ان نشانوں پر اپنے قدم جماتا، جو وہ اپنے پیچھے چھوڑے جارہے تھے 
میم۔سین 

No comments:

Post a Comment