Thursday, December 27, 2012

خود کلامی


میں لکھنا کیوں چاہتا ہوں؟ جب لکھنے کو عنوان بہت ہیں تو لکھنے والوں کا ہجوم بھی بہت ہے۔میرے لکھنے سے کیا فرق پڑے گا؟ ہونے یا نا ہونے کا ۔ نا تو میں گوھر بننے کا سفر ڈھونڈ پاؤں گا نااپنی تشنا لب حقیقتوں سے جان چھڑا پاؤں گا۔میرے ارد گرد ہجوم سنگ انا ہے ۔ میں اپنے قلم کی دھار کو کاغذ پر مشق سخن بنا کرحقیقتوں کے بت کیسے توڑ پاؤں گا؟ میرے لبو ں پر لگی مہر قلم کے الفاظ توڑ نہیں سکتے۔تو آبلہ پا صحرا نوردی کس کام کی؟ میرے سفر کی جستجو کے سفر کے آغاز کا سرا تو مل جائے گا مگر کیا میراقلم اس کا انجام ڈھونڈ پائے گا؟َ میرے ذہن کی سراسیمگی، حیرت اور نا گہانی خوف کم ہو پائے گا؟ مگر جب میں ہجوم کائنات میں خود کو تنہا پاتا ہوں۔ جلوت میں خلوت پاتا ہوں تو خلوت میں جلوت پانے کیلئے قلم کا سہارا میرے وجود کی جڑوں کو زمین کی گہرئی میں دور تک پھیلا دیتا ہے۔ مجھے لگتا ہے میں کسی کشتی میں سوار، پانی کے بہاؤ کے ساتھ کہیں دور نکل جاؤں گا۔اور کنارے پر آباد لوگوں سے رشتہ ٹوٹ جائے گا۔مگر میرا قلم مجھے ان لوگوں سے جوڑے رکھتا ہے۔ کنارے پر آباد بستیوں میں جنم لینے والی کہانیاں میری ذہنی بالیدگی کا ایک ذریعہ ہیں۔حقائق سے روشنائی ہے۔
مگر قلم کو رواں رکھنے کیلئے کسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔مگر میرے قلم کا محرک باباکو ان سے کوئی غرض نہیں ہے کہ کتنی تحریریں لکھی گئی ہیں اور کتنے جسموں نے روحوں کو گمگشتہ رستوں پر ڈھونڈھ نکالا ہے۔ کتنے نخلستان دریافت ہو گئے ہیں ۔ مگر بابوں کو موردالزام کیوں ٹھہرائیں؟وہ تو ہوتے ہی بے نیاز ہیں۔ وقت اور دنیا کی قید سے آزاد ۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ خیر خواہی کا زہر ارادوں کو کمزور کر دیتا ہے۔رستے ،سمجھ سے نہیں ،چلنے سے ملتے ہیں۔ زیادہ گفتگو حسساسیت پیدا کرتی ہے۔ حساسسیت کمزور کرتی ۔ہے ذہنی اور باطنی نقائص کواپنے اوپر ہاوی کرتی ہے۔ہو سکتا ہے بابا جی کے ذہن میں یہ باتیں نا ہوں۔ مگر میرے ذہن نارساں کو کون سمجھائے؟ جو سوچوں کے پر پیچ رستوں پر خود ہی چل پڑتا ہے۔
نئی منزلیں، نئی آگہی،نئی فطرت نئی سوچ کی تلاش میں۔میرا قلم وقتی طور پر ان پراگندہ خیالات اور ہوشربا حقائق سے دور کر دیتا ہے جن کا مجھے سامنا ہے۔یا مجھے ان کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔لیکن جونہی میرا قلم جمود کا شکار ہوا ،سب حقیقتیں ،سب فسانے، کسی آفریب کی طرح منہ کھولے میرے جسم و جاں کو مغلوب کر دیتے ہیں۔ سقوط کابل ہو یا بغداد کی حکومت کا زوال ہو۔مغربی سرحدوں کی بے یقینی ہو یامشرقی سرحدوں پر فوجوں کا اجتماع۔عصبی اور نسلی تعصب ہو یا صوبائیت کا ناسور۔فرقہ پرستی تو اب قصہ ء پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ اب تو دو قومی نظریہ کا انہدام اور ملکی یکجہتی کا انتشار جنم لے رہا ہے۔انا پرستی، خودپرستی،خود ستائشی سب کسی سونامی کی طرح اپنی بلند موجوں سے ملکی سرحدوں کی نظریاتی بنیادوں اور مذہبی ضرورتوں کو بہا لئے جا رہے ہیں۔میں خود فریبی کے جال میں خود کو کتنا بھی الجھا لوں مگر منٹو کے نئے آئین کی مانند کوئی امید نظر نہیں آتی۔گھپ ا ندھیروں میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے اور شتر مرغ کی طرح سر زمین میں چھپا لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بند گلی میں کھڑے ہو کر اونچی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کرخود کو زخمی کر لینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔بلند ہوتی موجوں اور آسمان سے گرتی ہلاکتوں کو دیکھ کر، لوگ رک جائیں تونئی صبحوں کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔مگر یہاں کوئی ہادی نہیں، کوئی مسیحا نہیں، کوئی امام نہیں، کوئیُ پیشوا نہیں۔ہر شخص ممبر رسالت پر فائز اپنے اصول گنوا رہا ہے۔ نئے دین ، نئی جماعتیں اختراء ہو رہی ہیں۔
میرا بابا میرے لئے ایک جام کا پیالہ بن گیا ہے وہ نہ ہو تو میں گھپ اندھیرے میں دم سادھ لوں۔ان کا ایک پیغام اور میرے دن بھر خمار کا آغاز۔میں زیادہ نہیں جانتا اورنا یقینی طور پر کچھ کہ سکتا ہوں مگر ایسے لوگ تبدیلی کے کارپرداز ہوا کرتے ہیں۔ عام لوگوں کے نذدیک اوندھی کھوپڑی کے لوگ۔مگر فکری بلندی ان کو عام لوگوں سے ممتاز بناتی ہے۔ مگر ان کی فکری بلندی اور جمادیاتی حسن کو تبھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے اگر وہ صاحب اختیار ہیں۔ مجھے نہیں معلوم بابا جی کس حد تک صاحب اختیار ہیں ۔ اپنے فیصلوں میں نہ سہی مگراپنی سوچ میں وہ کسی کے پابند نہیں ہیں۔ ہم حیات دوام کی جستجو میں ہیں۔ نوازشات کے تعاقب میں ہیں۔اقتصادی طمع نے باطنی اور شعوری کٖثافتوں کو عیاں کر رکھا ہے۔لطف دولت وجنس کے عذاب میں الجھے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ شدت احساس جذبات جائز ہے؟ یہ خود اذیتی ، خود فتنہ روانی جائز ہے؟ با با جی سے پوچھوں گا کسی روز۔ کیا شعور وجدان کے تابع ہے؟ کیا ادراک شعوری منزلوں کا باسی نہی ہے؟

No comments:

Post a Comment