Monday, December 31, 2012

نئے سال کے لئے

آج نئے سال کا پہلا دن ہے۔نئی روشنیوں، نئی تمناؤں، اورخواہشوں کے ساتھ نئے سال کا سورج دھند کی اوٹ میں چھپا رہا۔او ر اس کی کرنین زمین کے باسیوں تک پہنچنے کی سعی کرتی رہیں اوراسی آنکھ مچولی میں دن بیت گیا۔
کل جب تک دو ہزار دس کا سورج ڈوب گیا،میں اپنے پس منظر میں وسیع کینوس سنبھالے، نئے سال سے کچھ امیدیں باندھنے کی کا ارادہ رکھتا تھا مگر منٹو کے نئے آئین کی مانند کوئی روشنی نظر نہ آئی۔لیکن رات میں جب سرد دھندلکوں میں میں دیر تک سوچوں کے پر پیچ رستوں پر سرگرداں رہا تو صبح کو میری رائے رات سے مختلف تھی۔نئے سال میں کیا ہو گا؟شائد وہی ہوگا جو ہر سال ہوتا چلا آیا ہے؟ نیا کیلنڈر اور نئے سال کی نئی تاریخ ؟ کیا پھر گھنٹے دنوں میں اور دن مہینوں میں اور مہینے پھر سے نئے سال مں ڈھل جائیں گے؟
دریا جب اپنے بہاؤ میں اپنے حصار توڑتے ہیں توجہاں بے شمار بستیاں برباد ہوتیں ہیں وہاں پر بے شمار زرخیزی بھی لاتے ہیں۔ میناروں کی بنیادوں میں مزدور کا پسینہ بہتا ہے تو وہ بلندیاں دیکھتا ہے۔قطرہ اپنی انا کو ختم کر کے گوھر میں ڈھلتا ہے۔کندن آگ کی تپش پا کر سونے سے ڈھلتا ہے۔ہاں میں بہت پر امید ہوں۔آنے والے سال کے نئے دنوں کی سواگت کیلئے بہت بے چین ہوں۔بہت سی بستیوں نے محلات کیلئے اپنے وجود کو زمین سے صاف کیا ہے ۔بہت سا خون ہے جو جو مٹی میں مل کر نئی عمارتیں کھڑی کر نے کیلئے بے چین ہے ۔میں نئے سال کی نئی امیدوں کے تعاقب میں ہوں۔جنگلوں کو آگ نے راکھ بنایا، اب یہی راکھ زندگی میں ڈھلے گی۔نیا گلستان آباد کرنے کیلئے۔وہ گھر جو جل گئے تھے، اب وہ پھر سے آباد ہونگے۔میری نظر لہو کے ان قطروں پر ہے جونئی روحوں کو جنم دیں گے۔مجھے یقیں ہے، آنے والا سال کائنا ت کی ہر نعمت لئے چشم راہ ہوگا۔لذتِ آفرینی ہوگی،جو روحوں کی کثافت دھو ڈالے گی۔مجھے یقین ہے نئے سال کا شعور پچھلے سال کے شعور سے بہتر ہوگا۔میرے گمان حقیقت پائیں گے، میرے خواب زندگی میں ڈھلیں گے۔میری ساری خواہشات میرے ہاتھ میں ہونگی۔
لیکن میں اتنا پرامید کیوں ہوں؟میرا تصور اتنا اثر انگیز کیوں ہے؟میرے خواب اتنے قابلِ رشک کیوں ہیں؟ہاں یہ حسرتیں ہیں میری، جو برس ہا برس محنتوں سے پائیں ہیں۔میری مضطربانہ کیفیت جو شائد میرا مقدر ہے، نے مجھے زندگی کی شعریت سے روشناس کرایا ہے۔مجھے رموزِ حیات سے آگاہ کیا ہے۔میری روح کی تشنگی نے مجھے امید سے سرشار کیا ہے۔میں خواب اور حقیقت کی معنویت سے باخبر ہو گیا ہوں۔ ہاں مجھے گاڑی کا ایک پرزہ رہنا ہے جس نے گاڑی کو چلانا ہے۔ مجھے سٹیرنگ پر نہیں بیٹھنا ۔ مجھے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ہاں مجھے یقین ہے میں نے قطرہِ حیات کو پا لیا ہے۔نیا سال میری نئی جہد کا آغاز ہے۔ میرے نئے خوابوں کا سلسلہ ہے۔
میم ۔ سین

No comments:

Post a Comment