Wednesday, May 29, 2013

پٹھان کی نفسیات

ملا عمر کی حکومت کے آخری دن تھے۔ جب امریکی بمباری سے متاثرین اور شہروں کو چھوڑ کر پناہ گزیں کیمپوں کا رخ کرنے والے لوگوں کی امداد کیلئے ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کا کوئی پچیس افراد پر مشتمل قافلہ پشاور سے روانہ ہونا تھا۔لاکھوں کی ادویات ہمراہ تھیں۔ کابل جانے کیلئے پہلے مہمند ایجنسی جانے کی ضروت تھی۔ اور وہاں سے بسیں کابل کیلئے روانہ ہوتی تھیں۔ بسوں کے اڈے پر جا کر کرایہ طے کرنے کی کوشش کی۔تو سب کی زبان تین ہزار پر رکی ہوئی تھی۔ بہت سمجھایا کہ یہ لوگ آپ کے بھائیوں کی مدد کیلئے جارہے ہیں۔کرائے میں کچھ کمی کرو۔ لیکن پٹھان کی ایک زبان ہوتی ہے، اس دن اس زبان کے ایک ہونے پر یقین آگیا کیونکہ جس سے بھی کرایہ کی بات کی سب نے ایک ہی لہجے اور ایک ہی ریٹ کی بات کی۔ اور یوں ہم ان کے بتائے ہوئے کرائے کو ادا کرنے پر مجبور ہو گئے جو پشاور کے باسیوں کے نزدیک کچھ زیادہ تھا اور صرف افغانستان کی خراب صورتحال سے فائدہ اٹھا یا جا رہا تھا۔دوپہر کے وقت پشاور سے روانہ ہوئے ۔عصر کے قریب ڈرائیور سے کہا راستے میں کوئی مناسب ہوٹل آئے تو گاڑی روک لینا ، عصر کی نماز بھی پڑھ لیں گے اور کھانا بھی کھا لیں گے۔لیکن اس نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔جب وقت عصر سے مغرب کی طرف نکلتا محسوس ہوا تو دوبارہ یاد کروایا کہ بھائی بیسیوں ہوٹل آپ نے نظر انداز کر دیئے ہیں ۔ اسلئے کسی بھی ہوٹل پر کچھ دیر کیلئے توقف فرما لیں۔ ڈرئیور نے سر اثبات میں ہلایا ۔ لیکن چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا۔پھر اچانک ڈرائیور نے مین روڈ سے گاڑی کو اتار ا اور ایک کچے راستے پر گاڑی ڈال دی ۔ ہماری نظریں بس سے باہر جھانک کر ہوٹل کے آثار ڈھونڈ رہیں تھیں لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ کوئی دو فرلانگ طے کرنے کے بعد ایک بڑا سا ٹرکوں کا اڈا آیا اور وہاں بس روک کر ڈرائیور ہمیں مخاطب ہو کر بولا ، یہاں کا کھانا بڑا اچھا  ہے  ۔۔لیکن قابلی پلاؤ ضرور ٹرائی کیجئے گا۔ میں نے قابلی پلاؤ کا نام صرف سن رکھا تھا لیکن اس دن معلوم ہوا یہ کون سی سوغات ہے۔ ایک تو بھوک کی شدت تھی اور دوسرا قابلی پلاؤ کا مزہ ۔۔ شائد کھانا کھانے کا ایسا لطف زندگی میں کبھی نہیں آیا ہوگا جو اس ہوٹل میں کھانا کھانے کا آیا۔ اور پھر مخصوص قہوہ ،  یوں لگا ڈرائیور نے یہاں لاکر اپنے زائد کرائے کا حق ادا کر دیا ہے۔ خیر سفر طے پایا اور ایجنسی پہنچے تو مغرب ہو چکی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ کابل جانے والی بسیں کل صبح سے پہلے نہیں مل سکیں گی۔ گاڑی والے نے اڈے سے گاڑی گھمائی اور ہمیں ایک ڈیڑے پر لے گیا اور رات ٹھہرنے کیلئے کہا۔ مغرب سے فارغ ہوئے تو قہوہ پیش کیا گیا۔ عشاء کے بعد بڑے بڑے تھالوں میں گوشت اور پلیٹوں میں شوربہ اور ساتھ روٹیاں رکھی گئیں۔ کھانے کے بعد ابلے ہوئے چاولوں پر چینی ڈال کر مدارت کی گئی۔سونے تک قہوے کے تو دو سے تین دور چل چکے تھے۔بستر ہمارے پاس تھے اس لئے رات گزارنے میں کوئی مشکل پیش  نہیں آئی۔۔ صبح ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ چائے کے ساتھ پراٹھے پیش کرکے ناشتہ کروا دیا گیا۔۔۔۔ اور یوں وہ لوگ جو کرایہ میں ایک روپیہ کم کرنے پر راضی نہیں ہورہے تھے ، ہماری خدمت پر ہزاروں خرچ کر دیئے۔۔۔۔۔ پٹھان کی نفسیات کو سمجھنا ہمارے جیسے شہریوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر اسلام آباد میں بیٹھنے والوں کیلئے
میم۔سین

No comments:

Post a Comment