Thursday, December 19, 2013

لافانی لمحے



لافانی لمحے


زندگی میں ہر شے کا مول نہیں ہوا کرتا۔کچھ چیزیں انمول ہوا کرتی ہیں۔ جیسے رشتوں کی قیمت، خلوص کا معیار، جیسے محبتوں کا ترازو ،سچائی کی پاکیزگی،جیسے وفا کی لطافت۔۔۔۔۔۔
لیکن میں یہ سب کچھ ایک ان پڑھ اور دیہاتی عورت کو کیسے سمجھاتا؟ ایک ایسی عورت جس نے اپنی آنکھ ہی خودغرض ، اناپرست ، خواہشوں اور محرومیوں کے معاشرے میں کھولی ہو۔ اسے محبت کے ان لازوال جذبوں کی داستان کیسے سمجھاتا ؟۔ کچھ چیزیں لافانی ہوتی ہیں۔جن کا حصول انسانی معراج ہوتا ہے۔کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جو سچائی کے آئینہ دارہوتے ہیں۔ایسے جذبے جو جینے کی امنگ پیدا کرتے ہیں۔ایسے جذبے جن پر تہذیب فخر کرتی ہے۔ایسے جذبےجو ذہنوں کو جلا بخشتے ہیں۔ 
لیکن میں یہ سب باتیں کیسے سمجھا سکتا تھا ؟  میں نے دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے بوڑھی اماں سے رخصت چاہی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی اگلی صبح اناٹومی بی کا پیپر تھا۔ سبھی لڑکے اپنے پیپر کی تیاری میں مصروف تھے ۔صرف مصروف ہی نہیں بلکہ پیپر کی ٹینشن نے ان کے چہروں کی ساری خوشیاں ہی چھین لی تھیں۔ ساری مسکراہٹیں خزاں زدہ ہو گئی تھیں۔ ایک لڑکے نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حشر کے امتحان کے بعد دنیا کا سب سے مشکل امتحان یہی ہے۔
 جب مسلسل پڑھائی سے آنکھوں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہونے لگے تو رات دس بجے کے لگ بھگ میں نے چائے پینے کی غرض سے کینٹین کا رخ کیا۔ ابھی ہوسٹل کے دروازے سے باہر نکلا ہوں تو  نجیف سا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑعمر کے شخص نے مجھے روک کر ایک پرچی میری طرف بڑھا دی۔اور مجھے بتایا کہ میری بیٹی جناح ہسپتال میں داخل ہے اس کا فوری طور پر بڑا آپریشن ہونا ہے لیکن خون کا بندبست نہیں ہو پارہا۔ میں نے پرچی لیکر پڑھی تو اس پر بی نیگیٹو لکھا ہواتھا۔جو کہ میرا بھی گروپ تھا۔ اس کی بیچارگی اور مفلوک الحالی دیکھ کر ایک لمحے کو میرا دل پسیجا لیکن پھر پیپر کا خوف میرے اوپر حاوی ہوگیا۔ اور میں نے ٹالنے کی غرض سے دوسرے ہوسٹل کی طرف روانہ کرنے کا ارادہ کیا ۔لیکن اسی گھڑی، اخلاق اور اقدار کی موجیں فرض اور احساس کی چٹانوں کے ساتھ ٹکرائیں تو میں ایک لمحے کو آنے والے کل کی پریشانی کو بھول کر اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوگیا۔
جب واپس آیا ہوں تو دوستوں کے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے پر بتایا کہ لائیبریری چلا گیا تھا۔ جھوٹ بول کر میں نے نیکی کے اس جذبے کے بھرم کو تحفظ دینے کی کوشش کی تھی جو میری امتحان میں ناکامی کی صورت میں فرض اور تکمیلِ فرض کے فلسفے کو سوالیہ نشان بنا دیتی۔اور میں ضمیر کے بوجھ تلے زندگی کے احساس اور اورہر جذبے سے خالی ہوجاتا۔
اگلی صبح میرا پیپر، توقع کے برخلاف بہت اچھا ہوا اور اسی شادمانی کے نشے میں جناح ہسپتال کے گائنی وارڈ کا رخ کیا۔ وارڈ میں لگے بیسیوں بیڈز پر رات والے مریض کے اہل خانہ کو پہچاننا بہت مشکل تھا لیکن ایک بوڑھی اماں نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور مجھے ایک عورت کے بستر تک لے گئی، جس کے پہلو میں ایک نوزائیدہ فرشتہ آنکھیں بند کئے ساری دنیا سے بے خبر سو رہا تھا۔فرط مسرت سے میرے چہرے پر ایک بے ساختہ مسکراہٹ آگئی۔میں اس بچے کی روح سے بات کرسکتا تھا کیونکہ میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا،وہ زبان کی محتاج نہیں تھی۔میری روح جس سرشاری سے ہمکنار ہو رہی تھی، وہ لافانی تھی۔میرا من جو ابھی تک بے یقینی کی تاریکی میں لپٹا ہوا تھا ایک دم روشنیوں مین نہا گیا۔ میں نے انسانی جذبوں کے وارث ہونے کا ثبوت دیا تھا اور روح کی بالیدگی کی طرف پہلا قدم اٹھایاتھا،جس نے قناعت اور سنجیدگی کے جذبے اور احساس سے روشناس کروایا تھا۔
میں جونہی وارڈ سے باہر نکلا ہوں ۔بوڑھی اماں عقیدت کے موتی سنبھالے، پانچ سو کا نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اسے قبول کرنے پر اصرار کرنے لگیں۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ میں تو انسانی جذبوں کا امین ہوں میں ان جذبوں کا بیوپاری کیسے بن سکتا ہوں؟میں نے جاگتی آنکھوں کے ساتھ فردوسی سرور کو محسوس کیا ہے، میں اس کا سودا کیسے کر لوں؟ لیکن سادہ دل دیہاتی عورت کو ان لمحوں کے مخمور جھونکوں کی کیا خبر جو مسرتوں کے سندیسے لیکر میری زندگی میں آئے تھے۔جو میری روح کو گداز کرگئے تھے۔مجھے کیف اور وجدان سے ہمکنار کر گئے تھے۔یہ چند لمحے ہی تو تھے ۔لیکن کتنے دلفریب، کتنے لطف انگیزتھے،کتنے پاکیزہ، کتنے مخمور لمحے تھے۔ لیکن کبھی کبھی یہ چند لمحے آپ کی عطائے زندگی بن جاتے ہیں۔

میم سین

No comments:

Post a Comment