سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ایسی ہوا چلی ہے کہ دانشوروں کی لائن لگ گئی ہے۔بڑے بڑے مفکر پیدا ہوگئے ہیں۔شاعر اور ادیب دھڑادھڑ جنم لے رہے ہیں۔جن افراد کو بھی دن بھر بے کار پھرتے دیکھا کرتے تھے، وہ اب اپنے بے لاگ تبصروں اور تجزیوں سے خوب داد سمیٹ رہے ہیں۔۔ایسے افراد بھی جنہیں گھریلو معاملات میں مشورے کے وقت کمرے سے باہرنکال دیا جاتا تھا، اب بہت بڑے تجزیہ نگار بن چکے ہیں۔یمن پر سعودی حملوں کے بعد پاکستانی فورسز کی شمولیت کی خبروں کے بعد بدلتی صورتحال کے پیش نظر سوشل میڈیا میں مفکرین اور تجزیہ نگاروں کے تبصرے پڑھنے کے بعد میں بھی اس وبا سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا اور فری لانس تجزیہ نگار ہونے کا ٹھپہ لگوانے کا فیصلہ کرلیا۔
اس کے باوجود کہ ہر طرح کے تجزیے اور تبصرے تیار شدہ حالت میں دستیاب ہوتے ہیں اور انہیں الفاظ کے ہیرپھیر اور چند جملوں کے ردوبدل سے آپ اپنے نام سے قابل اشاعت بنا سکتے ہیں لیکن میں نے صحافتی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئےحقائق جمع کرنے کیلئے عوام تک رسائی کا فیصلہ کیا۔
چونکہ میرےعلاقے کی معیشت کی بنیاد زرعت پر ہے اور گندم کی فصل ابھی پکنے میں کچھ وقت لگےگا اس لئے معاشی حالات کچھ اچھے نہیں ہیں ۔اور علاقے میں ہونے والی چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعدیمن کا اصل مسئلہ سمجھنے کیلئے لوگوں کی کسی بین الاقوامی مسئلے پر رائے حاصل کرناداعش کے کسی مقبوضہ علاقے کی رپورٹنگ کرنے سے کم خطرناک نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی حقائق اور انکشافات تک پہنچنے کیلئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے یہ رسک لینے پر تیار ہوگیا۔
سب سے پہلے مہر امین سے رابطہ کیا ۔ کیونکہ یمن کی صورتحال کے حوالے اس سے مستند رائے کسی اور کی نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ امین صاحب عمان میں پورے اٹھارہ سال تک ویلڈنگ کا کام کرتے رہے ہیں اور یمن کے ہمسائے میں رہنے کی وجہ سے وہاں کی سیات پر ان کی گہری نظر رہی ہوگی۔میرے پوچھنے پر انہوں نے انکشاف کیا کہ معاملہ نہ سنی شیعہ کاہے اور نہ ہی کوئی حملے کا خطرہ ہے بلکہ یہ سعودی اور یمنی شاہی خاندانوں کے درمیان بچوں کے رشتوں کا تنازعہ ہے جس نے عالمی جنگ کارخ اختیا رکر لیا ہے
سولہ سال تک سعودی عرب میں ٹرک چلانے والے محمد بشیر نے ایرانی مداخلت کو یکسر مسترد کر دیا اور بتایا کہ ایران اور یمن کے درمیان، سعودی عرب میں سے کوئی سڑک نہیں گزرتی۔
خانہ کعبہ کے سامنے سب سے زیادہ سیلفیاں بنوانے کا اعزاز حاصل کرنے والے محمد اسد نے اسے یہودی سازش قرار دیتے ہوئے پاکستانی حکومت سے شاہین میزائل فوری طور پر سعودی عرب پہنچانے کیلئے کی درخواست کی۔
دوبئی میں مقیم علی عباس صاحب جو آجکل چٹھیوں پر پاکستان آئے ہوئے ہیں ،ایرانی مداخلت کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کی تو کوئی سرحد نہ تو سعودی عرب سے ملتی ہے اور نہ ہی یمن کے ساتھ۔ ایران کو اس معاملے میں گھسیٹنا انتہائی بچگانہ الزام ہے۔
محمد پرویز صاحب تھانوں کچہریوں کے معاملات میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب امریکہ کا کیا دھرا ہے۔ سعودی عرب کو چا ہیئے جیسے جنرل ضیا نے ہیروئین کا جہاز بھر کر امریکہ بھیج دیا تھا ایسے ہی امریکہ کے اندر انتشارپھیلانے کیلئے کوئی کام کرے۔
چاچا پسوڑھی کے نام سے مشہور ہر دلعزیز شخصیت سے رائے لینے گئے تو اپنے بچے کا پیمپر تبدیل کر رہے تھے اس کام سے فارغ ہوئے تو ان کے انکشافات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ یمن اور سعودی عرب کے بارڈ پر ایک پہاڑ دریافت ہواتھا جو کہ مکمل سونے کا تھا۔ ایران نے جب یمنی سرحد کی طرف سے اس پر قبضہ کرنے کی سازشیں شروع کیں تو سعودی عرب یمن پر حملہ کرنے مجبور ہوگیا۔
اسلم صاحب جو کئی سالوں سے علاقے میں حمام چلا رہے ہیں۔نے اس معاملے پر رائے دینے کیلئے بیوی کی مداخلت کے ڈر سے مجھے اپنے گھر سے باہر لے آئے اور اسے عالمی صیہونی سازشوں کا ایک حصہ قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ امریکہ عربوں کو جنگ میں پھنسا کر ویتنام کی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے۔
لیکن اکرم جٹ کے لڑکے نے جو کئی سالوں سے علاقے میں سبزی کی چھابڑی لگا ررھا ہے حیرت انگیزانکشاف کیا کہ صدام حسین نے امریکی حملے سے پہلے ایٹم بم یمن کو فروخت کر دیے تھے جو اب باغیوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔ اور سعودی خفیہ اداروں کو جونہی اس بات کا علم ہو ا انہوں نے فوراً یمن پر حملہ کر دیا۔
لیکن بشیر پنکچر شاپ والے کی رائے کچھ مختلف ہے ۔اس کا کہنا ہے نیا سعودی شیخ سلمان پہلے حکمرانوں سے بہت مختلف ہے۔ یمن پر سعودی حملہ دراصل اسرائیل کی طرف سعودی پیش قدمی کا پہلا قدم ہے۔ جونہی یمن پر قبضہ مکمل ہوا تو وہ اسرائیل پر حملہ آور ہوجائے گا۔
چوہدری کریانے والے رفیق صاحب کا کہنا ہے سارا کھیل امریکی اسلحے کی فروخت ہے۔ چونکہ سعودی عرب نے پاکستانی وزیراعظم کو بلا کر پاکستانی اسلحہ خریدنے کی پیشکش کی تھی بلکہ ایڈوانس پیسے بھی پکڑا دیئے تھے ۔لیکن امریکہ نے غلط اطلاعات دے کر اسے یمن میں پھنسا دیا ہے۔اب یمن سعودی عرب کیلئے افغانستان ثابت ہوگا۔انکشافات تو ابھی اور بھی بہت سے موجود ہیں لیکن کالم کا حجم زیادہ بڑھنے کے ڈر سے آئیندہ کسی کالم میں شائع کئے جائیں گے
ضروری نوٹ
اس کالم میں چھپنے والے تمام انکشافات کے حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں۔ کسی بھی تجزیے یا تبصرے میں شامل کرنے سے پہلے مصنف سے اجازت لینا ضروری ہے۔ بلا اجازت استعمال کی صورت میں کسی بھی قانونی کاروائی کا حق مصنف محفوظ رکھتا ہے ۔
میم سین
دلچسپ سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔ :)
ReplyDeleteتمہیدی جملے کے متعلق ایک تبصرہ کرنا چاہوں گا کہ دانشوڑی کی یہ وبا سوشل میڈیا کے آنے کے بعد نہیں پھیلی۔ یہ وبا بہت پہلے سے موجود ہوئی تھی۔ بس پہلے اس کو رسائی صرف محلے کی دکانوں کے تھڑوں تک حاصل تھی۔ اب پوری دنیا تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔
براوؤ۔ بہت اچھے۔
ReplyDelete