Tuesday, June 28, 2016

اندھی گولی



یہ جبر، سفاکیت اور انتقام کی وہ داستان ہے جو آدم کی پیدائش پر لکھی جانا شروع ہوئی تھی اور تاقیامت لکھی جاتی رہے گی۔جس طرح صبح اور رات کا ساتھ ہے، مرد اور عورت ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں ، بھوک اور روٹی کا رشتہ ہے۔ایسے ہی انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا ساتھ ہے۔ایسے ہی خدا کے ساتھ شیطان کا ساتھ ناگزیر ہے۔ایک نصیحت ہے اور دوسرااس کا رد۔ دنیا کا کوئی علم ، دنیا کی کوئی تہذیب، دنیا کا کوئی مذہب اس فطری انسانی تضادات کی خلیج کو پر کرنے کا دعوی نہیں کر سکتا۔ جب خدائی تلقین فتح پاتی ہے تو تہذیبیں جنم لیتی ہیں ۔ انسانی تاریخ کثافتوں کو دھو دیتی ہے ۔ لیکن جب شیطان کا رد تلقین پر غالب آنا شروع ہوجائے تو پھر کوئی بخت نصر، کوئی ہلاکو کوئی نادر شاہ کسی بھوت کے بھیس میں نازل ہوجاتے ہیں۔
انسانی شرست میں نیکی کا جو شائبہ موجود ہے وہ انسانی تضادات کے بہیمانہ طاقتوں کے سامنے جب بے بس ہوجاتا ہے تو عدل اور انصاف کے دروازوں پر قفل ڈال دیئے جاتے ہیں ۔ ضمیر روشنی دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ سینوں کے اندر دھڑکتے دل سخت گیر ہوجاتے ہیں ۔تو پھر ہر نئے سورج کے نکلنے کے ساتھ المیوں کی بھی ایک داستان لکھ دی جاتی ہے۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد فاطمہ کا خاوند لاہور میں ہونے والے دھماکے میں مارا گیا تو اس دن مجھے احساس ہوا تھا ایک مرنے والے کے ساتھ کتنے رشتے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کی جوان بیوہ اور دو ماہ کے بچے کو تو میڈیا کی آنکھ سے سب دیکھ رہے تھے لیکن فاطمہ کی دل کی مریضہ ماں جو چارپائی سے جا لگی تھی اور اس کا بوڑا باپ جس کی کمر وقت سے پہلے دھری ہوگئی تھی۔ اس کے بہن بھائی جن کے آنسو خشک نہیں ہو رہے تھے ۔ ہلاک ہونے والا کا اپنا بھی خاندان تھا۔ اس کے ماں باپ اس کے بہن بھائی اسکے چچا ، چچا زاد بہن بھائی، اس کا تایا اور ان کی اولاد، پھوپھیاں ۔۔رشتوں کی ایک طویل قطار ہوتی ہے جو ہر شخص کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ جب سے فاطمہ کا دکھ دیکھا ہے تب سے کسی کی ہلاکت کی خبر سنتا ہوں تو نگاہوں کے سامنے درد میں ڈوبے رشتوں کے انبار دکھائی دینے لگتے ہیں۔
کتنی آسانی سے نیوز کاسٹر شہ سرخیوں میں تیرہ افراد کی ہلاکت کی خبر سنا کر انٹرٹینمنٹ نیوز کی طرف بڑھ جاتی ہے۔یہ تیرہ افراد نہیں ہوتے ، تیرہ خاندان ہوتے ہیں جو اجڑ جاتے ہیں۔اور میں پھر بھی جان نہیں سکا کہ استقامت کی روشنی کیونکر لغزش کی تاریکی میں کھو جاتی ہے
انسان میں نیکی اور محبت کی تلقین عام ہے لیکن عملی طور پر انسانی رویہ مختلف ہے۔اور نصیحت اور عمل کا یہی تضاد ہمہ گیر مذہبی سچائی کو بھی مشکوک بنا دیتی ہے۔جب مذہب مشکوک ٹھہرا تو تو پھر ذاتی آدرشوں کو زندگی کا عرفان ٹھہرایا جانے لگتا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کے معیار بدلنے لگتے ہیں ۔وراثت میں ملی نیکیوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔تو پھر فرقے جنم لیتے ہیں۔ ہر فرقہ زندگی کو اپنے وجدان، اپنے عرفان سے پڑکھتا ہے۔ 
لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد علم سے انسان کے اندر کا درندہ مر جاتا ہے ۔ لیکن نہیں وہ زیادہ مہلک ہورھا ہے۔لوگ کہتے ہیں ہمارا شعور بدل گیا
 ہے۔ ہمارا شعور ،ہمارا ادراک زمین کے سطح سے اٹھ کر آسمان پر کمانیں ڈال رھا ہے ۔ لیکن وہ جو طاقت کا طلسم تھا وہ تو اب بھی موجود ہے۔وہ جو خدا بننے کی آرزو تھی وہ تو اب بھی موجود ہے۔تمکنت شاہی جن اصولوں کو وضع کر دیں ان پر کٹ مرنے کیلئے شاہ کے جنبش ابرو کے اشارے کے منتظر لوگ اب بھی موجود ہیں۔
لوگ کہتے ہیں ہم تہذیب کے سفر میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔لیکن وہ اجڈ اور وحشی دور اچھے تھے کہ اجتماعی قتل کے قائل تھے تاکہ کوئی آنسو بہانے والا نہ رہے ۔۔۔جن المیوں کی تاریخ فرعون نے مرتب کی۔ جن جبر کے دنوں کو بخت نصر نے مرتب کیا، جن نوحوں کو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے لکھنے پر مجبور کیا ، جن سانحوں کو تیمور لنگ اور نادر شاہ نے جنم دیا ان میں کیا فرق تھا جو المیے دوسری جنگ عظیم ، کوریا، ویتنام ، کولمبیا، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطی میں لکھے گئے ہیں۔کیونکہ یہ تاریخ تو بیسویں صدی کی با شعور نسل نے لکھی ہے۔

ہم شائد جبر کو قبول اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ہم میں جبر کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اور  مجبوراً آنکھیں بند کرکے ان پرفریب لوگوں کے ظلم کو سہہ کر ان کی اطاعت پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔اوریہی جبر کا ساتھ  ہمارا اصل المیہ ہے اور جب تک یہ المیہ موجود ہے ۔انسانیت کا لہو بکھرتا رہے گا۔ اور ہم شہید اور ہلاک کے درمیان حساب کتاب میں لگے رہیں گے۔تاریخ اپنے اوراق سیاہ کرتی رہے گی۔
کیونکہ یہ مسئلہ نہ مذہبی ہے، نہ سیاسی۔ یہ مسئلہ ہماری اجتمائی بے حسی اور خاموشی کا ہے۔ آفاقی عرفان کی بجائے ذاتی آدرشوں کی پیروی کا ہے
میم سین

No comments:

Post a Comment