Wednesday, June 13, 2018

بات سے بات


کل عید ہے ۔ چلیں کل اگر عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں تو ہوہی جائے گی۔
عید کے موقع پر ایک دوسرے کو تحفے بھیجنے ، مٹھائیاں، بانٹنے اورآجکل کیک بھیجنے کی روایت کافی پرانی ہے۔یہ کافی پرانی بات ہے شائد ہمارے بچپن کی.جی ہمارا بھی ایک.بچپن تھا ۔ ابو کے ایک دوست کے ہاں کسی نے سپیشل مٹھائی بھیجی جو انہوں نے عید کی مناسبت سے ہماری طرف بھیج دی ۔ شائد ہم بھی کہیں فارورڈ کردیتے لیکن کسی وجہ سے پیکنگ کھولنی پڑی۔ بہت خوبصورت گفٹ پیپر میں لپٹے ڈبے کو اگرچہ کھولنے کو دل تو نہیں کر رھا تھا لیکن جب گفٹ پیپراتارا تو اندر سے ایک عید کارڈ اور پانچ سو روپے عیدی نکلی۔جس کے بعد ہمیشہ کیلئے ایسے گفٹ فارورڈ کرنے سے پہلے نئی پیکنگ کی روایت رکھ دی ۔
تایا کی بیٹی کی شادی میں شرکت کیلئے ہوسٹل سے سیدھا ان کے ہاں پہنچا تو انہوں نے میرے اس قدم کی خوب پزیرائی کی اور واپسی پر سب خوبصورت پیکنگ والا مٹھائی کا ڈبہ ساتھ دیا جو وزن میں بھی یقیناًسب سے بھاری تھا۔لیکن جب ہوسٹل آکر دوستوں کو مٹھائی تقسیم کرنے کی غرض سے ڈبہ کھولا گیا تو اندر سے لڈو نکلے اور دوستوں نے تاحیات ہوسٹل سے شادیاں اٹینڈ کرنے پر پابندی لگا دی۔
ہمارا ایک دوست تھا ۔وہ جب وجد میں آتا تھا یا موڈ کے انتہائی اونچے نوڈز میں ہوتا تھا تو بلند آواز میں کاریڈور میں یا باتھ روم میں گانا شروع کردیتا تھا لیکن آواز کے سر اتنے خراب تھے کی ایک بار سب دوستوں نے اس کے گانے پر پابندی لگا دی کہ آئیندہ سے کمرہ بند کرکے بھی نہیں گانا۔ اس معاملے میں, میں خوش قسمت واقع ہوا تھا کہ مجھے کمرے کو کنڈی لگا کر گانے کی اجازت مل گئی تھی۔ کسی زمانے میں یقین کی حد تک وہم تھا کہ میری آواز سہگل سے بہت ملتی ہے۔ چھپو نہ چھپو نہ او پیاری۔۔۔۔ ایک دن اپنے یقین کے بارے ایک دوست سے مشورہ کیا تو اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا کہ اس میں قصور سہگل کی آوازکا نہیں تھا بلکہ اس زمانے میں ریکارڈنگز ہی اتنی خراب ہوتی تھی۔
ابھی جب ان پیج پر لکھنے کا ہنر نہیں آیا تھا تو اس وقت اپنی تحریریں اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے ایک ویب پیج پر اپلوڈ کردیتا تھا۔ یہ فیس بک کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب اپنی گھریلو سبزیوں کی کاشت کے حوالے پوسٹیں لگائیں تو ایک خاتون نے رہنمائی کیلئے انباکس رابطہ کیا۔باتوں کے دوران جب انہوں نے پوچھا کہ باغبانی کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں تو جھٹ سے اپنی آڈیو فائلز کا لنک بھیج دیا۔چند دن بعد ان کی طرف سے ایک ریکوئسٹ موصول ہوئی کہ اگر فلاں آڈیو والی تحریر ان پیج کردیں تو مہربانی ہوگی۔ اور اگلے ہی لمحے ان پیج پر مصروف ہوچکےتھے۔دو تین دن لگا کر ایک ڈیڑھ صفحے کی تحریر کو کی بورڈ سے کمپیوٹر سکرین پر منتقل کردیا۔ ٹاسک تو مکمل ہوگیا لیکن ہاتھ کی انگلیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور اپنی ساری تحریریں اپنی ڈائری سے اٹھا کر کمپیوٹر میں محفوظ کرلیں۔ 
ایک بلاگ بنا رکھا تھا جو دراصل میری ڈیجیٹل ڈائری تھی جس میں تصوریریں ویڈیوز، اقتباسات، شاعری پوسٹ کیا کرتا تھا۔وہ سب وہاں سے ڈیلیٹ کیا اور اپنی تحریریں وہاں سجانا شروع کردیں۔کچھ دوستوں کو لنک بھیجا تو ایک مہربان نے مشورہ دیا کہ کہاں چھپے بیٹھے ہو ۔ ان کو فیس بک پر شیئر کرو۔ ڈرتے ڈرتے فیس بک پر شیئر کرنا شروع کیا تو حوصلہ افزائی پا کر باقائدہ لکھنا شروع کردیا۔
پھر ایک دن کسی نے چورنگی نام کے ایک گروپ میں ایڈ کردیاتو فیس بک کی ایک نئی دنیا کا علم ہوا۔وہاں سے آواز سے ہوتے ہوئے بے شمار گروپوں تک رسائی حاصل ہوئی۔ ان گروپس کی بدولت بہت سے نئے لوگ ملے ۔ نئی سوچ، نئے انداز زندگی اور نیا فہم ملا۔ان لوگوں کے بارے میں کسی دن تفصیل سے لکھوں گا کہ جن سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جن کی بدولت دماغ کی بہت سے بتیاں روشن ہوئیں۔ اور سوچ کے بے شمار نئے زاویے دریافت ہوئے۔
کل عید ہے۔ اور اگر کل عید نہ بھی ہوئی تو پرسوں ہوجائے گی اور ہماری فیس بک سے وابستگی کے دس سال بھی مکمل ہوجائیں گے.
میم.سین

1 comment: