Tuesday, May 20, 2014

میرے قلم سے (part 6)

مجھ سے پوچھا جا رھا ہے کہ میں اتنا مایوس کیوں ہوں؟  لیکن میں سمجھتا ہوں یہ مایوسی نہیں، بے زاری ہے لیکن اس کو مایوسی کہیں یا بے زاری، بات ایک ہی ہے۔ اگر میں کوئی کارٹون کریکٹر ہوتا تو اب تک کئی بار کسی چھت سے کود چکا ہوتا لیکن میں کارٹون تو ہوسکتا ہوں لیکن کریکٹرہرگز نہیں۔ اگر کسی ڈرامے کا کوئی کردار ہوتا تو اپنا سر کتنی بار کسی دیوار کے ساتھ پھوڑ چکا ہوتا۔لیکن یہاں بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں جیتی جاگتی زندگی کا حصہ ہوں۔میرے غمگین ہونے کا سبب ہر گز یہ نہیں ہے کہ میں کوئی عظیم انسان بننے کو خواب دیکھ رھا ہوں کیونکہ ہر عظیم انسان زندگی میں غمگین اور اداس رھا کرتا تھا۔ ۔ہاں یہ بات ضرور ہے کہ چند دنوں سے مجھے احساس ہورھا ہے کہ میں اپنی جملہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہوں۔اگر یہ احساس وہم کی حد تک ہوتا تو شائد میں اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ جتنے وہم میری بیگم کو میرے بارے میں ہیں اور اگر ان میں کوئی حقیقت ہوتی تو میں اب تک دوسری شادی کر        چکا ہوتا ۔اورمیں کوئی پہیلیاں بھی نہیں  بجھوا رھا کیونکہ شادی شدہ انسان زیادہ پہیلیاں بجھوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا تصدیق کیلئے کسی بھی شادی شدہ شخص کی گواہی کافی ہے۔

میں بھی ناکام مری سعی عمل بھی ناکام

یہ  رات کا کوئی ایک بجا تھا جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔جب فون اٹھا یاتو کرخت لہجے میں ایک آدمی بولا
 علشباہ شام سے روئے جارہی ہے۔چپ ہی نہیں کر رہی۔۔۔ 

کون علشباہ؟ 
کہاں سے بول رہے ہیں؟ 
جی جمعہ کے روز آپ کو چیک کروایا تھا  
یاد رہے جمعرات کا دن شروع ہوچکا تھا۔بڑی مشکل سے پوری بات کو سمجھنے کے بعد ان کو ایک دو ٹوٹکے بتائے تو دوسری طرف سے یہ کہہ کر فون بند کر دیا گیااپنے مریضوں کو یاد بھی رکھا کریں

اور اس دن جب ایک آدمی اپنے بچے کو بخار کے ساتھ لیکر آیا تو میری اس وضاحت کو ایک طرف کردیا کہ کہ جب دوائی پلائی ہی نہیں تو آرام کیسے آسکتا ہے؟؟؟  اور
بار بار ایک ہی جملہ دھرائے جارھا تھاآخر ایک ڈاکٹر کو چیک کروایا تھا کچھ تو آرام آنا چاہیئے تھا۔
 

اور اس دن جب ایک آدمی نے کمرے میں آتے ہی شکوہ کیا کہ آپ کی لکھی ہوئی دوائی دو بار خرید کر پلا دی ہے لیکن ذرا بھی آرام نہیں آیا ۔ لیکن میرے اس سوال کا جواب دینا گوارہ نہیں کیا کہ یہ تو چھ ماہ پرانی پرچی ہے؟ اورایک ہی بات پر ضد قائم رکھی کہ اس وقت  بخار تھا۔اس دوائی سے پہلے دن ہی بخار اتر گیا تھا  اوراب بھی بخار ہے تو یہی دوائی دو بار استعمال کر ڈالی ہے لیکن بالکل بھی آرام نہیں آیا۔

اماں جی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی احسان جتایا ، ڈاکٹر صاحب آپ ہمیشہ شکوہ کرتے تھے میں وقت پرچیک اپ کروانے نہیں آتی۔ آپ نے پانچ دن بعد آنے کا کہا تھا میں پانچویں دن آگئی ہوں۔
میں نے کہا اچھی بات ہے ۔تشریف رکھیں۔ 
 پرچی ہاتھ میں پکڑی اور پوچھا  کہ طبیعت کیسی ہے؟ 
کہنے لگی بیماری کو تو کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا لیکن آپ نے کہا تھا پانچویں دن ضرور آنا ہے اس لئے میں آگئی ہوں۔ 
اچھا دوائیاں ختم ہوگئی ہیں؟ میں نے پوچھا
تو جواب آیا دوائیوں والا شاپر تو میں اس دن میڈیکل سٹور پر ہی بھول گئی تھی لیکن آپ نے تاکید کی تھی کہ میں پانچویں دن ضرور آؤں اس لئے آج آگئی ہوں۔

ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور اپنے موبائل فون سے ایک نمبر ڈائل کرنے کے بعد میری طرف بڑھا کرکہنے لگے، یہ جی بات کرلیں۔ 
میں نے فون کاٹ کر پوچھا پہلے بتائیں تو سہی آپ کون ہیں؟ اور کس سے بات کروا رہے ہیں؟
۔ اس پر وہ صاحب بولے میری رشتے کی پھوپھی ہیں۔ان کو فالج ہوگیا ہے ۔ ان کو یہاں لانے والا کوئی نہیں ہے۔
میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک مریض کو جو اتنا شدید بیمار ہو ، بغیر دیکھے کیسے دوائی دی جاسکتی ہے۔لیکن اس کا اصرار بڑھتا رھا۔جب مجھے قائل کرنے میں ناکام ہوئے توکہنے لگے ۔
ڈاکٹر صاحب آپ ڈبل فیس لے لیجئے گا

اورمیاں بیوی چھ ماہ کے بچے کو دستوں کی بیماری کے ساتھ میرے پاس دوبارہ لائے تو میں پوچھا کہ اس کو ڈبے کا دودھ شروع کیا تھا وہ کیوں بند کر دیا تو کہنے لگے نہیں جی  دودھ تو وہی استعمال کر رہے ہیں اور قمیض کی دائیں  جیب میں ہاتھ ڈال کا پلاسٹک کے شاپر کی ایک پوٹلی نکالی جس میں دو تین چمچ خشک دودھ کے تھے اوردوسری جیب سے کھانسی کے سیرپ کی خالی بوتل نکالی، جس کے اوپر نپل لگا ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس کا فیڈر کہاں ہے۔جواب آیا وہ تو گھر رکھ آئیں ہیں کہیں سفر میں گم نہ ہوجائے
اور ایک دن ایک صاحب ایک موٹی فائل کے ساتھ میرے پاس الٹراساؤنڈ کروانے آئے ۔فائل میں پہلے سے کوئی دس بارہ کے قریب الٹراساؤنڈ کی رپورٹس موجود تھیں۔جن میں دائیں گردے میں پتھری کی تشخیص کی گئی تھی۔بڑے مایوس لہجے میں کہنے لگے دس بارہ الٹرہ ساؤنڈ کروا لئے ہیں لیکن ابھی تک پتھری اپنی جگہ سے نہیں ہلی۔میرے سمجھانے پر کہ الٹراساؤنڈ کا کام تشخیص میں مدد دینا ہے اور آپ کے مرض کی تشخیص تو ہوچکی ہے اب اس کے علاج کیلئے بھی کوشش کریں۔کہنے لگے جے تیرے کول الٹراساؤنڈ نہیں ہے تو دس دے ایویں ، بہتیاں پہیلیاں نا بجھا(اگر تمہارے پاس الٹراساؤنڈ نہیں ہے تو بتا دو ۔ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع مت کرو)
میم سین

No comments:

Post a Comment