Wednesday, March 4, 2015

کچھ پرانی باتیں

پچھلے پندرہ سالوں  کے دوران ہمارے رویے، ترجیحات اور اقدار بہت کچھ بدل گیا ہے۔زندگی کا قدرتی پن اور بے ساختگی پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔لیکن یہ زمانہ طالب علمی کی بات ہے۔ اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر بچوں کی کمنٹس بک سے متاثر ہو کر ایک سروے بنایا ۔جس میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق سوال رکھے گئے تھے۔جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ نظام یا عوام؟ اگر آپ کو پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں رہنے کی آپشن دی جائے تو کس ملک کا انتخاب کریں گے؟اگر آدھی رات کو آپ کے گھر کے دروازہ پر گھنٹی بجے اور دروازہ کھولنے پر کوئی اجنبی لڑکی ہوتو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ امتحان سے ایک دن پہلے پیپر آپ کے ہاتھ لگ جائے تو کیا کریں گے؟ اگر ایک دفتر میں کلین شیو اورایک باریش کلرک موجود ہو تو مدد کیلئے کس سے رجوع کریں گے؟ اگر ایک دن گداگری کرنی پڑے تواچھی کمائی کیلئے لاہور میں کس جگہ کا انتخاب کریں گے؟ مرد اور خواتین اساتذہ میں سے کس کے ساتھ اپنے مسائل پر تبادلہ خیال میں آرام دہ محسوس کرتے ہیں؟ کسی مسئلے پر ننھیال یا ددھیال میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے توکس کا انتخاب کریں گے؟ 
یہ سوال نامہ اپنے دوستوں اور قریبی حلقہ احباب میں تقسیم کیا گیا ۔ کچھ نے واپس کئے کچھ نے نہیں۔ اگرچہ نتائج بھی تیار کئے تھے لیکن وقت کی گرد میں کہیں کھو گئے۔چند دن پہلے پرانی فائلیں جھاڑتے ہوئے اس سروے فارم کے کچھ بچے  کھچے اوراق ملے تو باقی نتائج اپنی جگہ لیکن ایک نتیجے نے مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا ۔اگر ایک دفتر میں کلین شیو اورایک باریش کلرک موجود ہو تو مدد کیلئے کس سے رجوع کریں گے؟تو پچپن میں سے ترپن نے باریش کے حق میں رائے دی تھی۔ کل ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں سوال اور اس کے نتائج پراپنی حیرت کا اظہار کیا تو میرے دوست نے بڑی مختصر لیکن بڑی جامع بات کی۔ کہنے لگے۔اس سوال پر آج بھی رائے عامہ شائد زیادہ مختلف نہ ہو۔آج بھی ایک عام آدمی دکانوں پرمعاملات ہوں، رستہ پوچھنے کی باری ہو، یا پھر کوئی مشورہ درکار ہو۔ہمیشہ باریش انسان کو ترجیع دیتا ہے۔ انسان ہمیشہ فطرت کی طرف جھکتا ہے۔اور داڑھی فطرت سے ہے۔اسی لئے اسلام میں داڑھی رکھنے کی ترغیب اور حکم دیا گیا ہے کیونکہ اسلام خود دین فطرت ہے
میم سین

No comments:

Post a Comment