Tuesday, March 3, 2015

ایک مردِ درویش کی وضاحت

میں مزاح پر یقین رکھتا ہوں۔اس لئے اگر میری اپنی  کوئی حرکت ایسی ہو جس سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آجائے تو میں اسے سنانے سے دریغ نہیں کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوںمزاح دوسروں کے تجربات کے ایسے مشاہدات ہوتے ہیں جو ہمیں مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں تو وہ تجربات دوسروں کے ہوں یا پھر میرےاپنے ہوں۔اگر وہ ایک اچھا مزاح جنم  رہےہیں۔تو مسکرانے میں تعصب کیسا؟
ایک محفل میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ بات برادریوں اور ان کی عادات اواطوار کی طرف نکل گئی۔ اور ارائیں گھرانے سے تعلق کے باوجود، جب میں نے ارائیوں کے بارے میں بھی کئی لطیفے اور ایسی باتیں سنائیں جن کو سن کر سب خوب محظوظ ہوئے تو وہاں سےرخصت ہوتے ہوئے ایک دوست نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ میں تو آج تک آپ کو ارائیں سمجھتا رھا ہوں۔

میاں بیوی کے لطیفے سن کر اکثر عورتیں اس نتیجے پر پہنچتی ہیں کہ شائد مرد اپنی زندگیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ یا شائدایسی لطیفوں کا مقصد مرد کو مظلوم بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔یا پھر ایسی باتوں سے بیویوں کی توہین مقصود ہوتا ہے۔لیکن یہ سب باتیں سچ نہیں ہیں۔
 مزاح ادب کا ایک لطیف پہلو ہے۔ ادب کی تخلیق کا تعلق بڑی فہم وفراست سے ہوتا ہے۔اور جو روزمرہ کے لطائف ہم سنتے ہیں وہ اسی تخلیقی ادب کا ایک حصہ ہیں،روز مرہ کے مشاہدات  ہیں۔لیکن کیا کیا جائے قلم کا توازن مرد نے اپنے حق میں کر رکھا ہے اس لئے مزاح کا ایک ہی پہلو سامنے آتا ہے۔جس میں مرد ہمیشہ مظلوم اور عورت ایک جابر انسان کےروپ میں نظر آتی ہے۔عورت نے اگرچہ ہر میدان میں خوب مقابلہ کیا ہے لیکن اس میدان میں بحرحال ابھی بہت پیچھے ہے اس لئے میری تو بڑی شدت سے خواہش ہوتی ہے کہ مردوں کے لطیفے سننے میں ملیں۔ملتے بھی ہیں لیکن ابھی آٹے میں نمک کے برابر۔۔ ۔
لیکن ہمارا ادب کچھ عرصے سے آزاد اظہار اور حقوق نسواں کا  جس طرح پرچار کر رھا ہے وہ بھی تو نامناسب ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ موجودہ دور میں افسانہ لکھنے کیلئے آزاد خیال اور مذہب بیزار ہونا بہت ضروری ہے۔لیکن بحرحال موجودہ ادبی رجحان جس معاشرے کا تاثر دے رھا ہے اس  کے وجود سےبھی کلی طور پر اتفاق ممکن نہیں ہے۔۔


میاں بیوی کے رشتے کے ساتھ مزاح کیوں؟؟
میاں بیوی کا رشتہ ایک روحانی تقاضا ہے۔یہ رشتہ بھی کتنا عجیب ہوتا ہے۔ترغیب کا جزو ، پاکیزگی کے عنصر کے ساتھ نتھی کر دیا جاتا ہے اورایک شگفتہ جیون جنم لیتا ہے۔ جس کے تحت الشعور میں کیسے بھی جذبے کارفرما ہوں لیکن شعوری قوتیں انہیں کسی لطیف اور حسین احساس میں ڈھال دیتے ہیں۔شادی سے پہلے عموماً مرد کیلئے عورت کے ساتھ سے زیادہ ،اس کے جسم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن شادی کا رشتہ جلد ہی جسم کی چاہت کو کہیں تحلیل کر دیتا ہے۔ایک دیوانگی جنم لیتی ہے جو جسم میں خون کی حرارت بن کر عورت کے  دلفریب اور دلکش پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے۔اس رشتے کے اس آفاقی پہلو کو بحرحال کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ شادی کے بعد دو اجنبی انسان ایک دوسرے کے بہی خواہ اور سچے ہمدرد بن جاتے ہیں۔
کتنا حیا پرور رشتہ ! خود سپردگی کے ایک منفرد احساس کے ساتھ ایک عزت ، احترام کا رشتہ۔ قلبی تعلق۔ایک بے ریا خلوص ہے۔۔جو قربت، جو محبت، ، جو بے تکلفی، جو اپنائیت اس رشتے میں پائی جاتی ہے کیا وہ کسی اور رشتے میں ممکن ہے؟ یہ رشتے کا تقاضا ہے کہ جس قدر دونوں کے درمیان بے تکلفی بڑھے گی اسی قدر محبت کی فطرت پہاڑ کی طرح ٹھوس اور سخت ہوگی۔ لیکن اگر اس رشتے کو بھی مصلحتوں کا شکار رکھیں گے، تکلفات کی دھیمی آنچ پر سجائے رکھیں گے تو پھر یہ رشتہ بھی روایتی رشتوں کی طرح محبت کا دھوکا ہوگا۔ذہنی اور روحانی طور پر انتشار کا شکار۔ایک ایسی بانجھ زمین میں تبدیل ہوجائے گا جس میں صرف شک کے بیج اگ سکیں گے۔میرا مشاہدہ ہے سب سے گہرا رشتہ ان دوستوں کے درمیان ہوتا ہے جن کے درمیان حد سے زیا دہ بے تکلفی ہوتی ہے۔۔ مرد و زن دونوں میں۔۔ اگر کوئی غلط فہمی جنم بھی لےتو وہ بھی  جلد زائل ہوجاتی ہیں۔

یہ سچ ہے کہ انسان زندگی کے ہر موڑ پر محبوب بننا پسند کرتا ہے اورجو اسے محبوب کا درجہ دیتا ہے اس کیلئے اس کے دل میں عزت کا مقام خود ہی پیدا ہوجاتاہے۔بلکہ محبت کا صلہ بھی محبت کی صورت میں دیتا ہے۔اور یہی فطری جذبہ شادی کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔لیکن شادی کے بعد محبت کے اظہار بدل جاتے ہیں۔ اٹھنے والے قدم اور ایک دوسرے کیلئے برداشت  اور قربانی کے جذبے لفظوں کی جگہ سنبھال لیتے ہیں۔شادی کے بعد یہ بات بے معنی ہوجانا چاہیئے کہ مرد یا عورت جب تک ایک دوسرے کے زانوں پر اپنا سر نہیں ٹکائیں گے اور اپنی زبان سے محبت کا دعوی نہیں کریں گے تو اسے محبت نہیں سمجھا جائے گا۔ بالکل بیکار کی باتیں ہیں۔

میاں بیوی کے درمیاں مزاح اکثرترجیحات کے فرق کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔مرد کی زندگی کیلئے پہلی ترجیع کئی دفعہ بیوی کیلئے عیاشی کے ضمرے میں آتی ہے۔ اور بیوی کے ناگزیر امور ، میاں کیلئے ہنسی کھیل سے زیادہ نہیں ہوتے۔اور جو زندگی کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کے قائل ہوتے ہیں وہ ان  ترجیحات کے فرق سے محظوظ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس میں شامل کر لیتے ہیں۔ لہذا ایسی باتیں پر تلملانا محض اس رشتے کے راستے میں کانٹے بکھیر نے سے زیادہ کچھ نہیں۔ نہ تو ترجیحات تبدیل ہوسکتی ہیں اور نہ ایک دوسرے پر انحصار کم ہوسکتا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر انحصار بڑھتا جارھا ہے۔اور یہی ایک دوسرے پر انحصار اس رشتے کا حسن بھی ہے اور لطیف پہلو بھی۔
اور ایسے مسائل کا واحد حل ایک دوسرے کی ترجیحات کو سمجھتے ہوئے ان کو اہمیت دینے میں ہے۔۔
ایک گھر سے ہمیشہ قہقوں اور ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں۔ایک دن کسی نے صاحب خانہ سے پوچھا۔اتنی خوشگوار زندگی کا  راز کیاہے؟ ؟۔صاحب نے جواب دیا۔جب ہماری لڑائی ہوتی ہے تو میری بیوی  برتن مجھے مارتی ہے۔اگرمجھے وہ نہ  لگے تو میں ہنستا ہوں اور اگر وہ مجھے لگ جائے تو وہ ہنستی ہےاور یوں ہنستے ہنستے ہماری زندگی گزر رہی ہے۔
میم سین

2 comments:

  1. آپ نے بہت اچھے موضوع پر قلم اٹھایا۔ جناب مبشر سلیم صاحب
    جس طرح شاعری لکھنے پڑھنے کے لیے ذوق اور نثر کے لیے شوق ہونا بنیادی چیز ہے اسی طرح مزاح سمجھنے کے لیے انسان کا
    سنجیدہ ہونا بہت اہم ہے۔ مزاح نہ صرف سمجھنا بہت مشکل ہے بلکہ اس کا لکھنا اس سے بھی مشکل کہ لکھاری نہیں جانتا کہ اس کے لفظ کو پڑھنے والا اپنی سمجھ اپنے فہم کے مطابق کیا معنی دیتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے ادب نے آپ کو کیا دیا ہے ؟ تو میرا جواب ہوگا حس مزاح جس کے بنا زندگی ادھوری ہے

    ReplyDelete