Thursday, January 21, 2016

کوتاہیاں

جناح ہسپتال کے باہر ایک پرانی کتابیں بیچنے والا سٹال لگایا کرتا  تھا۔ میری اس سے گاڑھی چھنتی تھی۔جب بھی کوئی نئی کتابیں یا رسالے اس کے پاس آتے تو  اطلاع کر دیتا کہ اپنی پسند کی کتابیں الگ کرلو۔ رمضان کے دن تھے کہ ایک دن اس نے پیغام بھیجا کہ کچھ نئے رسالے آئیں ہیں۔ اس کے پاس پہنچ کر معلوم ہوا کہ مشہور ٹیبلائیڈ، نیوز آف دی ورلڈ اور ایسکائر کا پلندہ موجود ہے۔۔ یوں لگا کہ جیسے کوئی لاٹری نکل آئی ہے۔۔  اس سے ساری بوری خرید کراپنے کمرے میں لاکر رسالوں کا ڈھیر لگادیا ۔۔اور پھر پڑھنے میں کچھ ایسے کھویاکہ وقت  گزرنے کا احساس اس وقت ہوا جب سحری کا وقت نکلنے کے قریب تھا۔۔ جلدی سے سحری کی اور نماز کے بعد نیند کچھ ایسی طاری ہوئی کہ بارہ بجے آنکھ کھلی۔ بھاگم بھاگ تیار ہوکر وارڈ پہنچا تو اقبال صاحب کا وارڈ راؤنڈ جاری تھا۔ اقبال صاحبان دنوں سینئر رجسٹرار تھے ۔بہت شفیق اور قابل انسان۔۔۔ میں بھی چپکے سے  شامل ہوگیا۔ اقبال صاحب نے میری  آمد کو نظر انداز کیا اور راؤنڈ جاری رکھا۔راؤنڈ مکمل ہوا تو مجھے پاس بلا کر کہنے لگے۔ رمضان کا مہینہ بہت برکتوں والا ہے۔ اور اس میں جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے۔ لیکن اپنی عبادات کے دوران اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ذمہ داریوں میں کوئی خلل  نہ پڑے۔ ان کی باتیں سن کرمیں شرمندگی سے  گھٹنوں پانی میں گڑگیا ۔آئیندہ سے احتیاط کا وعدہ کرکے ان سے تو جان چھڑا لی
لیکن آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے ۔ کاش کل قیامت والے دن ہمارا رب بھی ہماری کوتاہیوں کو ایسے ہی نظر انداز کردے
میم سین

No comments:

Post a Comment