Monday, January 25, 2016

موم کا مجسمہ



مجھے نہیں معلوم میرے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا یا پھر کوئی ماورائی طاقت مجھے مجبور کر دیتی ہے کہ میں کھوج میں لگا رہوں۔۔نیلے آسمان اور اس دھرتی کے درمیان جو کچھ بھی موجود ہے میں اسے ٹٹولتا رہوں,۔۔۔پڑکھتا رہوں۔
شائد میں میں اس روشنی اور نمی کی تلاش میں رہتا ہوں جو میرے اندر بھڑکتے ہوئے شعلوں کی تمازت لے کر اس یوٹوپیا کی تخلیق میں میری مدد کریں جو ناممکنات کو امکانات میں ڈھالنے کا سلیقہ جانتے ہوئے میرے لہو میں پھڑپھراتے انسانی فطرت اور جبلت کو فتح کا احساس دلا سکیں۔زندگی کی معنویت کو پہچانتے ہوئے آرزؤں کے ذریئے ناامیدی کے اندھیرں میں تحلیل ہوتی حقیقتوں کو کسی نومولود بچے کی طرح سینے سے لگانے کی تڑپ بیدار کرسکیں۔ 
لیکن میرے یہ تخیل گھمبیر ہوتے چلے جارہے تھے۔ انسانی تفہیم کے اسباب کسی آشوب کا شکار نظر آنے لگے تھے۔ نفسیاتی الجھنوں کے سائے پروان چڑھنے لگے تھے۔ میرا کردار تضادات کا شکار رہنے لگا تھا۔ میں نے تگ ودو کی خوشی کو محسوس کرنا چھوڑ دیا تھا۔ امنگوں نے میرے سینے میں پنپنا چھوڑ دیا تھا۔اورایسے میں میرا وجود کسی گھپ اندھیرے غار میں بند ہوگیا تھا۔
یہ اس رات کا قصہ ہے جب میں نے پہلی بار اس کو قریب ہو کر دیکھا ۔اس مجسمے کے پاس سے روز گزرتا تھا لیکن کبھی اسے غور سے دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔میں اس کے قریب آیا۔ کسی نگینے کی طرح سجی چھوٹی سی ناک۔بچوں جیسی حیران ، گہری آنکھیں۔گہرے نیلے لباس میں لپٹا بدن۔جب میں اسے بہت غور سے دیکھ رھا تھا تو اس نے اپنی لمبی گھنی پلکوں کو حرکت دی۔
خوف سے میرے اوسان خطا ہوگئے اور میں ڈر کے بھاگا اور اپنے بستر میں چھپ گیا۔صبح آنکھ بہت دیر سے کھلی۔ایسے لگا میں کسی بہت گہرے خواب سے جاگا ہوں۔اس کو پھر سے قریب سے دیکھا ۔کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ وہی پرانا موم کا مجسمہ۔۔۔وہی نگینے جیسی ناک۔۔بچوں جیسی حیران آنکھیں
دن بھر تو میں یونہی زندگی کے دھندوں میں کھویا رھا ۔ رات کو سونے سے پہلے اس کے پاس جا کھڑا ہوا۔ وہ مرمریں گردن ۔۔۔نچلا ہونٹ تھوڑا سا دبا ہوا اور اس دباؤ کی وجہ سے ایک عمودی لائن۔ اورہاں شانوں کو چھوتے گھنے سیاہ بال۔
اس نے اپنے ہونٹوں کو حرکت دی ۔جس دن تم نے غیر مشروط محبت کرنا سیکھ لیا اس دن ایک نئے سورج نے طلوع ہونا ہے۔۔
میں ڈر کے پیچھے ہٹ گیا لیکن میری نظریں بدستوں اسے تکے جارہی تھیں ۔
دنیا چاہے کتنی ہی نامکمل ہو۔تہذیب کتنی ہی ادھوری ہو۔لیکن اس کا شعور مکمل ہونا چاہیئے۔آپ ڈر کیوں رہے ہیں؟ میں کوئی جن بھوت تھوڑی ہوں یا کوئی دیو ہوں۔ میں ایک وجود ہوں ایک ٹھوس تحریک۔۔اس لئے مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے خوفزدہ چہرے کے ساتھ کن اکھیوں سے اسے دیکھا اوراپنے اوسان کچھ بحال کئے۔لیکن ابھی تک بے یقینی کی کیفیت نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔
جو لوگ پانے کا مفہوم نہیں جانتے وہ بہت پر سکون زندگی گزارتے ہیں۔مجھے تکلف اور بناوٹ کی اداکاری نہیں آتی اس لئے شائد میری باتیں کچھ کڑوی لگیں ۔لیکن زبان کو کسیلا پن سکھائیں گے تو مٹھاس کا احساس ہوگا۔سب لذتیں عارضی ہوتی ہیں۔سب خواہشیں ایک عرصے بعد اپنا اثر کھو دیتی ہیں،زندگی ہمیں اس وقت خوبصورت لگنے لگتی ہے جب موت کا احساس ساتھ ہو۔
اس کی باتوں نے مجھے مدافعت پر اکسایا۔لیکن وہ جس ترنگ میں بول رھا تھا اس نے جلد ہی مجھے مرعوب کر لیا۔
دن بھر میں اپنے معمولات میں مصروف رہتا لیکن اس کے بارے میں سوچتا رھا ۔نگینے جیسی ناک، شانوں کو چھوتے گھنے سیاہ بال۔۔۔ہلتے ہونٹ اور ہونٹوں سے الہام کی مانند نکلتے الفاظ۔۔
انسان جس قدر زندگی سے وابستگیاں قائم کرتا ہے اسی قدر اسے مایوسی کے صدمے سہنا پڑتے ہیں..جو توقعات نہیں باندھتے وہ کم از کم ان صدموں سے تو بچ جاتے ہیں۔اور تمہارا المیہ بھی یہی وابستگیاں ہیں۔آدھی دنیا مذہب کو مانتی ہے اور آدھی نہیں۔اور مذہب بھی فرقوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔انسان کو مقصد سمجھانا اور اور اسے قائل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔اور تم اپنے ذہن سے اختراعیں نکالتے ہو اور اختراع قطیعت کا نام نہیں ہے ۔ اور مجھے افسوس ہے تم اپنی اسی فطری کمزوری سے دھوکہ کھاتے ہو۔
وہ کونسا موضوع تھا جس پر اسے دسترس نہیں تھی۔زندگی کا وہ کونسا پہلو تھا جس پر رائے دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ہزار اختلافات کے باوجود اس کی طلسمی شخصیت کے حصار سے نکلنا مشکل ہوجاتا۔
...میں جو کسی طور شعور اور جذبے کو ضم کرنے پر راضی نہیں ہورھا تھا اور ایک نظریاتی مریض کا نیا روگ سامنے رکھ دیتا
نفسیاتی الجھنوں کے سائے تلے پروان چڑھنے والے لوگوں کے کردار مکمل نہیں ہوا کرتے۔اسے مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔اور ہم سب اسکا شکار ہیں۔وہ تضادات کا شکار رہتا ہے۔وہ اس شفتگی کو برقرار نہیں رکھ پاتے جو ان کی بقا کے لئے ضروری ہوتی ہے۔وہ خوشی اور مسرت کی اس گدگدی کو بھی محسوس نہیں کر سکتے جو ان کے ارد گرد جابجا اپنی نوزشیں بکھیرے ہوتی ہیں۔
اس کے کندھوں پر بکھرے بال کسی جھٹکے سے ہوا میں لہراتے اوراوراس کی سیاہ آنکھیں اور گہری ہوجاتیں اورجب بات شروع کرتاتو اس کے نچلے ہونٹ کی عمودی لائن کے گرد ابھار کچھ اور نمایاں ہوجاتے۔
کیونکہ ہم اپنے من کی سچائی کو نظر انداز کرتے ہیں۔خود ساختہ آردشوں اور جھوٹے اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ذہنی اختراعوں کا پیچھا کرتے ہیں لیکن یہ سچائیاں نہیں ہیں۔ یہ وہ مصنوعی ڈسپلن ہے جس کا ہم پیچھا کرتے ہوئے ہم اپنے من کی سچائی کو بھول جاتے ہیں۔سو اپنے حصے کی خوشیاں پہچانو۔کیونکہ خوشی ایک وجدانی کیفیت کا نام ہے جو محرکات سے زیادہ احساسات کی محتاج ہوتی ہے۔
میں فطرت کو زیر کرنے کی باتیں کرتا۔انسانی فطرت کی کمزوریوں کی باتیں ۔ناامیدی کے اندھیروں میں تحلیل ہونے کی باتیں ۔میں اس سچائی کی باتیں کرتا جو ہمیں کہیں نہیں ملتی ۔ میں ان بہیمانہ اندھیروں کی باتیں کرتا تھا۔جہاں کائینات کے گیت اپنی آواز پہنچانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
لیکن موم کا مجسمہ اپنے تصورات کے تند دھاروں سے میرے انتہا پسند خیالات کو کند کر دیتا ۔کبھی میرے جذبے کو رد کردیتا تو کبھی میرے شعور کی نفی۔۔مجھے حیرت ہوتی کہ وہ اتنی روانی اور آسانی سے دنیا بھر کے فلسفوں پر بات کیسے کر لیتا ہے۔وہ اپنے اثبات سے میری منفی کی ایک نہیں چلنے دیتا تھا۔مجھے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ ہم دونوں میں سے کونسا کردار زیادہ دقیق ہے۔اس کی باتوں سے دل ایک انجانی خوشی سے بھر جاتا ۔زندگی کی تلخیاں گلیشیئر سے آئی کسی سرد ہوا کے سامنے منجمند ہوجاتیں، میری روح کسی پرواز کیلئے بے تاب ہوجاتی۔۔۔۔انسان ایسی قیمتی چیزوں کے حصول کیلئے زندگی داؤ پر لگا دیتا ہے لیکن مجھے اس کے صرف قرب کی تمنا رہ گئی تھی ۔ اس کی باتوں کا قرب اس کی سوچوں کا قرب۔لیکن جب موم کے مجسمہ نے اپنے نور سے میرے دل ودماغ کو جگمگا دیا تھا۔۔۔۔ تو میں کسی حساسیت میں ڈھلنا شروع ہوگیا ۔اس حساسیت کی تمازت سے وہ پگھلنا شروع ہوگیا۔
خوشی ۔۔۔ امنگیں۔۔زندگی۔۔۔۔ جذبات۔۔ احساسات۔۔۔ماوریئت۔۔وجدان۔۔عرفان ۔۔۔
میرا لاشعور اس پگھلے ہوئے موم میں اپنی یاداشت سے معنی بھرنے کی کوشش کر رھا ہے لیکن وہ نگینے جیسی ناک اور کندھوں کو چھوتے بال۔۔۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment