Wednesday, February 10, 2016

گفتگو کا سلیقہ


ہمارے لوگوں کی اکثریت صرف مسلمان ہے ۔۔ ورنہ وہ تبلیغی اجتماع کی دعا میں بھی شرکت کرتے ہیں اور میلاد کی محفلوں میں بیٹھتے ہیں۔۔۔وہ توحید کے گن بھی گاتے ہیں اور کسی عرس میں چادر چڑھانے کو بھی عیب نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔۔ان کے مسلک کا فیصلہ اس کے علاقے کی مسجد یا اس کے دوست احباب یا پھر خاندانی رجحانات کرتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کسی کو اپنے نظریے کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں تو اہمیت شائد اس بات کی اتنی نہیں ہوتی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔ 
لوگ کردار کی زبان کی سچائی کو پہچانتے ہیں۔  ہمارا اخلاق کیسا ہے۔ رویہ کیسا ہے۔ تہذیب کیسی ہیں۔ ہماری عملی زندگی کیسی ہے۔
ایسے ہی فیس بک پر بھی لوگوں کی اکثریت نہ تو لبرل ہیں اور نہ ہی قدامت پرست۔۔۔۔۔۔ ان کا مائینڈ سیٹ دوسروں پر تنقید کی بجائے، موقف کے خوبصورت اظہار پر مبنی ہوتا ہے۔دلائل سے زیادہ فریقین کا طرزعمل، الفاظ کا چنائو، تہذیب کا لباس اور آدابِ محفل زیادہ اہم ہوتا ہے ۔۔ اور طنز کے تیروں سے مسلح ہوکر ذاتیات پر اتر آنے سے نا صرف اپنا مقدمہ کمزور کر لیتے ہیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی مسائل کھڑا کر دیتے ہیں جو آپ کے ہی موقف پر کھڑے ہوتے ہیں
جب بھی کسی پوسٹ پر کوئی مسلکی، مذہبی یا پھر فکری بحث کی جاتی ہے تو اس میں کوئی بھی فریق نہ سیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی سیکھنے کے موڈ میں ہوتا ہے۔۔عموما ۔مقصد دوسرے کو مسخر کرنا اور اپنی بات کی تائید میں دلائل دینا ہوتا ہے۔۔۔اور یوں دھیمے لہجوں میں شروع ہونے والی گفتگو غل غپاڑہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔بات موضوع سے ہٹ کر ذاتیات پر آجاتی ہے اور دلیلیں گالی گلوچ میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بحث میں کوئی فریق متاثر نہیں ہوتا ۔ فرق پڑتا ہے تو اس قاری پر جو خاموش ہوتا ہے۔۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment