Thursday, September 13, 2018

ہسٹری میڈ ایزی


شاہجہاں کے چار بیٹے تھے ۔ دارالشکوہ ، شجاع ، اورنگ زیب اور مراد۔
شاہجہاں کی ساری ہمدردیاں دارا کے ساتھ تھیں ۔دارا ایک پڑھا لکھا ،سمجھدار شہزادہ تھا لیکن اس کا ہندومت کی طرف رجحان بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہزادوں، امرا اور عوام میں کافی تحفظات پائے جاتے تھے۔ اور یہی بات اس کے خلاف بغاوت اوراسکی شکست کا سبب بنیں ۔
پھر ایک دن اچانک بادشاہ بیمار ہو گیا اور اتنا بیمار کہ اس کے بچنے کی امید نہ رہی جس سے فائدہ اٹھا کر دارا نے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ جس کے مقابلے میں شجاع نے اپنے صوبے میں اور مراد نے اپنے علاقے میں اپنی تخت نشینی کا اعلان کردیا۔ اورنگزیب نے بادشاہت کا اعلان تو نہ کیا لیکن دارا کو وارننگ بھیجتا رھا کہ یہ سب کچھ قبل از وقت ہے۔ ابھی ایسا اعلان کردینا صرف جلد بازی ہے۔
ادھر شاہجاں کی صحت بہتر ہونا شروع ہوگئی لیکن اس نے دارا کا بھرپور ساتھ دیا۔ جس پر اورنگ زیب نے مراد کے ساتھ صلح کرکے دھلی پر فوج کشی کی تیاری شروع کردی۔ دارا  اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ شجاع کی سرکوبی کیلئے اپنے بیٹے سلیمان کے زیرنگرانی بھیج چکا تھا۔ اور شجاع شکست کھا کر پیچھے ہٹا تو سلیمان تعاقب میں دھلی سے بہت دور نکل چکا تھا۔  دارا جب  نگزیب اور مراد کے ساتھ لڑائی کیلئے نکلا تو بیٹے کیلئے اس کی مدد کیلئے پہنچنا ممکن نہیں رھا تھا۔ شاہ جہاں کی نصیحت کے برخلاف کہ بیٹے کی واپسی تک دھلی انتظار کرو، فوج لیکر اورنگ زیب سے لڑنے نکل پڑا۔
گھمسان کی جنگ ہوئی ابتدا میں پلڑا دارا کا بھاری تھا لیکن پھر مراد کی غیر معمولی بہادری سے جنگ کا نقشہ بدل گیا اور دارا کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ 
مراد اور اورنگزیب نے  جنگی میدان سے  آگرہ پہنچ کر شاہجہاں کے قلعے کا پانی بند کردیا۔جس پر بادشاہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگیا ۔اسی قلعے میں بادشاہ کو نظر بند کردیا گیا۔جہاں شاہجہاں نے زندگی کے باقی دس سال قید میں گزارے۔آگرہ سے اورنگ زیب اور مراد نے دھلی کیلئے سفر شروع کیا۔رستے میں اورنگ زیب نے دھوکے سے مراد کو اغوا کیا اور گوالیار کے قلعے میں نظر بند کردیا۔اور بعد میں ایک مقدمہ میں قصاص کی ادائیگی میں پھانسی پر چڑھا دیا
دارا کے خلاف ایک اور جنگ لڑی گئی اور وہ بھاگتا ہوا سندھ کے رستے افغانستان جارھا تھا لیکن بلوچستان میں ایک بلوچ سردار نے پکڑ کر اسے اورنگ زیب کی خدمت میں پیش کردیا جس کے بعد اس کا سرقلم کرکے شاہجہاں کی ناشتے کی میز پر سجا دیا گیا
شجاع کی بغاوت کچلنے کیلئے فوج بھیجی گئی اوروہ شکست کھا کر بھاگتا بھاگتا بنگال سے اراکان کے جنگلوں میں جا نکلا جہاں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے مقامی لوگوں نے اسے قتل کر دیا
اور یوں اورنگزیب کے انچاس سالہ عہد کا آغاز ہوا
دارا کے بیٹے جس نے شجاع کی بغاوت کو کچلا تھا اسے گرفتار کرے جیل میں ڈالا دیا گیا جہاں زہر دے کر اسے مار دیا گیا
اپنے بیٹے محمد سلطان کو بھی بغاوت کے الزام میں گرفتار کرکے اسے زندان میں ڈال دیا تھا اورزندان خانے میں ہی انتقال کرگیا
ایک اور بیٹے محمد اکبر نے اورنگ زیب کے خلاف بغاوت کی تو شکست کھا کر باقی زندگی ایران میں گزاری
اور اورنگ زیب نے اپنی زندگی میں کسی بھی ایسے قابل بندے کو زندہ نہیں چھوڑا تھا جو اس کی بادشاہت کیلئے خطرہ ہو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے مرنے کے بعد ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جس کے اندر  صلاحیت ہوتی کہ وہ مغلیہ سلطنت کو سنبھال سکتا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مغل سلطنت اورنگ زیب کی وفات کے بعد چند سالوں میں بکھر گئی اور ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا اور انگریزوں کو ہندستان پر قبضہ کیلئے آسانی ہوگئ

No comments:

Post a Comment