Saturday, September 8, 2018

تاریخ کا المیہ



تاریخ کا المیہ:

اگر میں اپنی زندگی کے گزارے گئے چالیس سالوں کو تین سو پینسٹھ دن شمار کروں اور پھر زندگی کے اہم واقعات کی فہرست بنا کر اس پر کوئی کتاب لکھوں تو ایسے واقعات زیادہ سے زیادہ تیس دن بن جائیں گے چلیں مزید کچھ اضافہ کرلیں تو یہ پچاس دن بن جائیں گے۔اور جب دنیا میری زندگی کو پڑھے گی تو ان کو وہ پچاس دن معلوم ہوجائیں گے لیکن میری زندگی کے جو تین سو پندرہ دن باقی رہ جائیں گے اس سے کسی کو شناسائی نہیں ہوگی اور ان کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا۔حالانکہ وہ میری اصل زندگی ہے جو میں نے گزاری ہے۔

اور یہی تاریخ کاالمیہ ہے
جب ہم خاندان عباسیہ ، خاندان امیہ کی تاریخ کو مرتب کرتے ہیں تو ہمیں سال کے پچاس دن مل جاتے ہیں جو ظلم، جبر اور قتل وغارت سے بھری پڑی ہے لیکن وہ تین سو پندرہ دن جن میں راز پوشیدہ تھے ،مدینہ سے سے شروع ہونے والے ریاست کی سرحدیں افریقہ اور یورپ تک پہنچنے کے ،وہ کسی کو دکھائی نہیں دیتے

یہی حال ہندستان کی تاریخ کا ہے اور یہی سلطنت عثمانیہ کا۔ ہمارے سامنے وہ پچاس دن رکھ کر باقی سوا تین سو دن نظروں سے اوجھل کردیئے جاتے ہیں۔

اکبر کے دین الہی کو تو سبھی جانتے ہیں۔اسے کافر قرار دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔کیونکہ وہ سب پچاس دنوں پر لکھا گیا ہے لیکن ہمارے علم میں وہ انتظامی فیصلے،ادارے، وہ اصلاحات سامنے نہیں آتیں جن کی بدولت پچاس سال تک کابل سے بنگال تک حکومت کی رٹ قائم رکھی گئی کیونکہ وہ سب بھی تین سو پندرہ دنوں پر مشتمل تھے ۔۔

میرا سلطان کی بدولت حرم کی سازشوں اور حرص اور ہوس کی داستانیں تو سب جانتے ہیں۔ لیکن سلطان کو سلیمان دا مگنیفیشنٹ کس نے بنایا تھا۔ہمیں ان سے کبھی آگائی نہیں ہوئی۔ شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں میرا سلطان کے بادشاہ کی سلطنت اپنے زمانے کی روئے زمین پر سب سے بڑی، مضبوط اور طاقتور ریاست سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کے پیچھے کون سے کون سے راز تھے ہم تاریخ کے ان سوا تین سو دنوں میں میں کھو دیتے ہیں ۔

تاریخ ہمیں آئس برگ کی صرف ٹپ دکھاتی ہے اور ہمارے ذہنی مرعوبیت کا شکار، احساس کمتری میں مبتلا دانشور اس ٹپ کو اٹھا کر پورے آئس برگ کی ساکھ کو گہنا دیتے ہیں

اور یہی تاریخ کا ایک دردناک المیہ ہے

میم سین

No comments:

Post a Comment