Monday, October 28, 2013

گیان ، دھیان، اور وہم

آجکل دل آوارہ گردی کیلئے مجبور کر رھا ہے۔ اپنی پہچان کھو کر کسی بھیڑ میں گم ہوجانے کو دل چاہتا ہے۔ خودساختہ ذمہ داریوں کو میں مانتا نہیں اور میرے اس فرار کو کوئی مانتا نہیں۔ میں نے زندگی میں کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے، حساب کتاب کا قائل نہیں ہوں لیکن پھر بھی اپنے ہونے یا نہ ہونے سے دنیا کو کیا فرق پڑتا ہے، جاننے کا خواہاں ہوں۔ موسم تبدیل ہورھا ہے ایک دوست کا کہنا ہے کہ انٹیکچوئل بننے کا زکام ہوگیا ہے، چند دن میں ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن یہ سلسلہ تو ایستھما یا السر کی طرح بڑھتا ہی جارھا ہے۔ مسئلہ بیزاری کا ہے جس نے فلسفہ کا سہارا لے لیا ہے۔ صوفیت کا للکارہ ہے ، گیان دھیان کا بندہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی تشکیک کا شکار ہوں۔ زندگی کی معنویت سے ہمکنار تھا لیکن ذہنی بالیدگی نے تنہاہی کا شکار کر دیا ہے، ایک اجنبیت ہے،زندگی کے دوھرے معیار نے ایک کردار میں ڈھال دیا ہے۔ جو بغیر کسی سکرپٹ کے اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔ کہانی کچھ اور ہے اور میں شائد کچھ اور ادا کر رھا ہوں۔ تماشائی تو شائد اس سے باخبر ہوں نہ ہوں لیکن مجھے احساس ہورھا ہے میں میں غلط سیٹ پر غلط کردار نبھا رھا ہوں۔اور میں اپنا کردار دوبارہ لکھنے کی کوشش کررھا ہوں۔ عمل تجدید سے گزرنا چاہ رھا ہوں۔ لیکن سرا ہے کہ کہیں کھو گیا ہے، رستے نظر آتے ہیں، لوگ بھی، کردار بھی، لیکن ان تک پہنچنے کا رستہ کہیں بند ہے ہے۔۔انسان کیا ہے؟ شعوری تجسس اور خودآگہی کا مرکب؟ وہ تو صرف دریافت کرتا رھتا ہے، اپنے آپ کو ، اپنی امنگوں اور خواہشوں کی حدوں کو؟ اس کی جستجو تو صرف ان بھیدوں کی تلاش ہے جو اس کے نذدیک نامعلوم ہیں۔۔ وہی اسرار جو ایک بعد ایک نئی چادر اوڑھے اس کے تجسس کو بھڑکاتے رھتے ہیں۔کہیں علم کی دنیا کو اپنے قلب پر ھاوی کرتا ہے تو کبھی وہ اپنے احساس، یا ایمان سے کام لیتا ہے۔ اس کیلئے تو اپنے آپ سے پڑے ہر چیز ایک راز ہے۔ وہ جنس مخالف ہو یا اس کا اپنا وجود، اس دھرتی کا وجود جس میں اس نے جنم لیا یا اس میں پائے جانے والے ارواح۔ ایک طرف اس مادیت کا کھوج ہے جس کیلئے استدلال ذہن سے ڈھونڈتا ہے اور دوسری طرف فکری کشمکش ہے جو حق اور باطل کے نام سے جاری ہے۔خواہشات کے تضاد کے ساتھ جنم لینا والا انسان گومگوں کے عالم میں تنہا سرگرداں نظر آتا ہے۔وہ اس علم پر یقین رکھے ؟جو اس کے حواس خمسہ دے رہے ہیں یا اس وجدان پر یا اس ایمان پر جو اس کے اندر سے بیدار ہورھا ہے یا اس کی گٹھی میں ڈال دیا جاتا ہے۔زندگی کیا ہے اور اس کی ضروریات کیا ہیں؟ بدمستیاں کہاں سے شروع ہوتی ہیں اورعیاشی ضرورت کو کب عبور کرتی ہے؟ہمارا علم اس قدر باریکیوں میں تقسیم ہے کہ ہمارے اندر نافہمی کا ایک سمندر موجزن ہے۔تقلید کی اندھا دھند پیروی پر تنقید کرتے ہوئے جب ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے، حواس جب علم سے بہرہ ور نہ ہوسکیں تو تقلید نہ ڈھونڈیں تو کب تک مخمصوں میں پھنسے رہیں۔علم تو وہی ٹھہرا جو ترقی کا سفر دکھاتا ہو، جن کی تصدیق حواس خمسہ کی گواہی ہو۔تپنے صحراؤں ، گھنے جنگلوں ، صعوبتوں کے صحرا کے سفر کس کام کے؟؟؟
میم۔سین

No comments:

Post a Comment