Wednesday, October 30, 2013

ارتقا (I)

جذباتی یا پھر نفسیاتی طور پر مرعوبیت ہماری فطرت میں شامل ہوچکی ہے یا پھر ہمارے اعصاب پر طاری ہے۔ہم لوگ اس قدر سہل پسند ہوگئے ہین کہ زندگی کے ہر معاملے میں Template کا سہارا مانگتے ہیں۔ اپنی کوئی سوچ نہین ہے، اپنا کوئی شعور نہیں ہے۔ہماری سرشت کی وسعت سرنگوں ہے۔ ہمارا شعور سوالی بن چکا ہے۔ ہمارا کردار حقیقتوں سے بے خبر ہے۔ تجزیے، تجربے، نتیجے سب قیاس پر مبنی ہیں۔ حقیقیتیں ہوتیں تو دیر پا ہوتیں، خیر لاتیں، ذہنی بالیدگی سے ہمکنار ہوتے۔ گلوبل ویلیج کے فلسفے پر عمل پیرا ، مسرتوں کے طالب جو نہیں جانتے کہ روح کی تسکین بھی کوئی معنی رکھتی ہے،کچھ جذبات جبلی ہوتے ہیں۔ روحانیت کی بھی ایک سیڑھی ہوتی ہے۔لیکن یہ سیڑھی ہمیشہ طبعی ضرورتوں کے ساتھ چڑھتی ہے۔معنویت اور مقصدیت سے بے خبر۔جن کے صرف جذبات مغلوب ہیں لیکن حقیقت سے خالی ہیں،جن کی سوچ صرف خواہشوں کے تابع ہے اوراپنی ان کے خواہشوں کے تعاقب میں بھٹکتا پھرتا ہے۔سرگرداں ہے۔جب خود صاحب رائے بن جائیں تو رستے اور منزلیں کہاں ملتی ہیں ؟ اور بھول جاتے ہیں کہ مرعوبیت کا شکار لوگ صرف شکوک و شہبات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ وہ کبھی تخلیق کے منظر کی لذت آفرینی سے آشنا نہیں ہوسکتے۔ وہ تو کھونٹے سے بندھے بیل ہیں۔لگام پکڑا کر چلنے کے عادی۔ لیکن جس دن کشش ثقل کے ساتھ سفر کی بجائے برعکس سفر کا آغاز ہوگیا اس دن اسباب بھی مل جائیں گے، تخلیق کا عمل بھی شروع ہوجائے گا، روح اور جسم کا رشتہ بھی قائم ہوجائے گا
میم سین

No comments:

Post a Comment