Monday, October 28, 2013

ارتقاء سے پہلے

سوال ہی سوال ہیں اور جواب بھی سوال ہیں
حیات جاودانی کیسے ملتی ہے؟
آب حیات کے حصول سے
آب حیات کہاں سے ملے گا؟
جہاں زیست اور موت میں تفاوت باقی نہیں رہتی
یہ لمحے کب نصیب ہوتے ہیں؟
جب خوابیدہ شبستانوں میں نیند تکلف کے معنوں سے آزاد ہوجائے
دوام زندگی کا پہلو پھر کیسے حاصل ہوگا؟
خرمن صبر و استقلال سے
یہ تو حدود وقیود کا تعین ہوا؟
بیش بہا بھید کھل جائیں تو شان دلربائی کیسی
پھر تو حیات جاودانی ، پیرھن کاغذی ٹھہرا؟
زندگی کسی سربسیدہ رازوں کی طرح پراسرارکیوں ہے؟ کبھی کسی قابل ستائش جذبوں سے ہمکنار تو کبھی کسی مہیب غار کی تاریکی کو لئے ہوئے کوئی گھمبیر خاموشی،کبھی ایسی شان بے نیازی کہ پاس کھڑے بھی قرب کا احساس نہیں تو کہیں سنگلاخ چٹانوں میں گم آ بلہ پا لیکن کسی آتشیں جذبے سے مغلوب۔ کبھی محبت کے جذبے کا ساتھ اور وجود کے دردیوار سحر زدہ، تو کبھی کبھی اداسی کسی منحوس طلسم کی طرح ایک ھالہ بنائے اداسیوں کی تہوں کی ایک قطار بساتی جارہی ہو۔لیکن زندگی کے مدوجذر نے تخریب کے عمل کو اس قدر مائل بہ عمل کررکھا ہے کہ جذبات کسی گلیشئر سے آتی سرد ہوا کے زیر اثر اپنا وجود یوں کھو بیٹھے ہیں کہ زندگی ، بقا، طلب، مقصد کسی سوالیہ نشان کی طرح ہر وقت نگاہوں کا تعاقب کرتے نظرآتے ہیں۔
عورت کا وجود ایک ٹشوپیپر کی طرح ہونا چاہیئے کسی سیاہی چوس کی طرح جو سب کچھ جذب کر لے لیکن احساس نہ ہونے دے۔ اسے صرف جذب کرنا چاہیئے لیکن وہ جب عمل اور ردعمل کے فلسفے کے ساتھ الجھ بیٹھے تو الزام کس کو دیا جائے؟؟۔ عورت تو دیوار گریہ ہے جس کے ساتھ لگ کر چند لمحوں کیلئے اپنے حزن ،ملال ، بے تابی ، کو اس دیوار میں جذب کر دینے کے بعد روح اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھا جاسکے۔ خود فراموشی کی داستانیں کہاں گئیں۔؟
وصل کیا ہے؟ فراق کیا ہے ؟ کوئی ناطاقتی ہے یا فنا کا سفر ہے؟ شکست سے آگہی ہے یا پھر فتح کا خمار ہے ۔آرزو کیا ہے ؟ ، جستجو کیا ہے؟ وصل کی تمنا رکھیں یا فراق کی طلب کریں ۔وصل ایک گرد ہے جو تھم گئی ہے، فراق وہ قطرہ جو سیپ کا رستہ ڈھونڈتا ہے۔وصل وہ تناور درخت ہے جو اپنی شاخوں کو مٹیالی چادر بن کر اڑتے بادلوں کا سینا چیڑ کر گرتے قطروں کے آگے خود کو مجبور سمجھتا ہیے، اپنی ٹہنیوں کے ساتھ ،پہاڑوں کو تھپڑے لگاتی ،وادیوں ڈھلانوں کو چھوکر آتی  تیز ہوا کے جھونکوں کے آگے سر کو جھکا دیتا ہیں۔ فراق وہ بیج ہے جو شکست آشنا تو ضرور ہے لیکن ہار ماننے کیلئے تیار نہیں ہے۔کسی پر کی طرح تیرتا ہوا کسی نئی منزل کی تلاش میں لیکن ارادوں کو نگل نہیں سکتا۔ کیا یہ زندگی کا تضاد نہیں ہے ہم دریا دلی کی تو بات کرتے ہیں لیکن خود کوخش وخاک کی طرح بہہ جانے نہیں دیتے۔ہم فراق سے خوفزدہ ہیں لیکن وصل کی لذت کو بھی فانی سمجھتے  ہیں ؟ 
ذہنی بالیدگی بھی ایک المیہ ہے اور ایک لافانی المیہ۔ جب آپ زندگی کو مضبوطی سے دبوچ کر کرب سے نجات سے تگ دو کر رہے ہوتے ہیں۔چہرہ تھکن سے چور اور اعصاب کسی لڑکھڑاتے غمگین لہجے سے دوچار ہو اور سستانے کیلئے ایک جھٹکے سے زندگی سے دامن کو چھڑا کر پل بھر کو سانس لینے کیلئے آزاد ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ جس فرط وانسباط کیلئے آپ کا رواں رواں پھڑک رھا تھا۔وہ سب کسی اجنبی دیس کے مکین ہیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کسی نئی سمت کو نکل گئے ہیں اور اب تنہائی اور اداسی کا ایک لامتناہی سلسلہ آپ کیلئے دامن پھیلائے ہوئے ہے۔ خوداعتمادی کس بات کی؟ ہم تو قسمت کی لکیروں پر ناچ رہے ہوتے ہیں۔کیا ایسی دلربا چیزیں بھی اس دنیا میں آباد ہیں جن پر کبھی خزاں نہیں آتی، جو غیر فانی ہو؟ سب کچھ تباہ ہوجائے لیکن ان کی دلکشی برقرار رہے ان کا تناسب انتشار زدہ نہ ہو؟ہماری کوتاہیاں ہیں، کمزویاں ہیں یا شائد تساہل پسندی کہہ لیں لیکن ہم بھانجھ ہیں ۔ خیالات کے معاملے میں، جستجو کے ارادوں میں ، طلب کے حصول میں۔لیکن ہم پھر بھی زرخیز میدان دیکھنا چاہتے ہیں۔کیکڑ کے درخت سے سایہ مانگتے ہیں۔سرخ وسفید گلاب کے پھولوں کو ہمیشہ کھلا دیکھنا چاہتے ہیں ۔نیلگوں آسماں کے بہت قریب جاکر کسی حسینہ کی زلفیں سمجھ کر اپنے ہاتھوں سے چھونا چاہتے ہیں۔حسرتوں کی ایک آگ ہے جو دھک رہی ہے۔جن ذہنوں میں صرف خواہش ہو، وہاں تعبیر کی جستجو بھی ہوتی ہے وہ نہ ہو تو پھر وہاں صرف وہم ہوتے ہیں۔تو کیا اس شعوری بھانجھ پن کی موجودگی میں خواہشوں  کے آلاؤں جلانا حرص کے منہ زور گھوڑوں کی باگیں چھوڑ دینا ہے؟ طمع کی شعاؤں کو دھند لکوں سے نکال کر اسے وادیوں میں بکھیر دینا ہے ؟؟
میم سین

No comments:

Post a Comment