Wednesday, November 6, 2013

بلا عنوان

ایک میاں بیوی بچے کو اٹھائے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور پوچھا ڈاکٹر مبشر آپ ہی ہیں ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ تو مرد نے سلام لینے کیلئے ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔ اور بتایا کہ میں ہڑپہ سے آیا ہوں اور مہر بہادر علی کے منشی نے بھیجا ہے ۔اس سے پہلے پوچھتا کہ وہ کون ہیں؟ اس نے خود ہی جواب دے دیاکہ اس کے بیٹے کی بیماری کو آپ سے آرام آیا تھا۔انہوں نےبہت سے ڈاکٹروں سے اپنے بچے کا علاج کروایا تھالیکن کہیں سے بھی شفا نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن آپ سے صرف ایک بار چیک اپ کروایا تو وہ ٹھیک ہوگیا تھا۔ بڑی تعریف سنی ہے آپ کی!! اس سے پہلے کہ وہ اپنے قصیدے کا رنگ کچھ اور بڑھاتا، میں نے مداخلت کی کہ کیسے آنا ہوا ہے ؟ تو اس نے بتایا کہ وہ اپنے بچے کو چیک کروانے آئے ہیں۔ میں نے اپنائیت کے ساتھ بیٹھنے کو کہا اور پوچھا کہ بچے کو کیا تکلیف ہے؟تو کہنے لگا کہ آپ کی بہت تعریف سنی ہے خود ڈھونڈ کر بتائیں کہ بچے کو کیا مسئلہ ہے؟ ۔سمجھانے کی کچھ کوشش کی کہ بیماری کی نوعیت کے بارے میں کچھ تو بتا دیں لیکن وہ مصر رہے کہ آپ خود پتا لگائیں۔پھر اپنے تجربے کی بنیاد پر پوچھنا شروع کیا کہ کوئی نہ کوئی سرا ہاتھ آہی جائے گا
 بخار تو نہیں ہو رہا؟
نہیں
کھانسی؟
نہیں
دستوں کی شکائیت؟
نہیں ہے
الٹیاں تو نہیں کرتا؟
نہیں
مٹی تو نہیں کھاتا 
نہیں
دودھ کون سا پیتا ہے؟
 بھینس کا پیتا ہے 
اب مجھے تشویش ہونے لگی کہ بظاہر کوئی بیماری بھی نہیں ہے اور صحت بھی اچھی ہے تو پھر کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ اور میرے سوالوں کے جواب میں زیادہ لب کشائی کے وہ قائل نہیں تھے۔ بلکہ میرے سوال ان کوناگوار گزر رہے تھے۔
کوئی خارش یا الرجی کی شکائیت تو نہیں ہے؟ 
نہیں
بھوک ٹھیک لگتی ہے؟
جی اسکا تو سارا دن منہ بند ہی نہیں ہوتا 
رات کو سکون سے سوتا ہے؟
جی ہاں ساری رات میں صرف ایک بار اٹھ کر فیڈر پی لیتا ہے۔
اب میں اپنی ناکامی اوراپنے  اوپر اعتماد اور یقین کے درمیان ملزم بنا بیٹھا تھا ۔ اور اس یقین کے بھرم کو قائم رکھنے کی خاطر بتایا کہ آپ کا بچہ بالکل ٹھیک ہے پھر بھی یہ ایک ٹانک لکھ رھا ہوں، کچھ عرصہ استعمال کروائیں ۔
مرد نے پرچی میرے ہاتھ سے پکڑی اور کچھ کہے بغیر بیوی اور بچے کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ کچھ دیر بعد وہ مرد میرے ڈسپنسر کے ساتھ دوبارہ اندر آیا۔ اور کہنے لگا فیس کس بات کی؟ ساری باتیں تو ہم سے پوچھیں اور اصل بیماری پھر بھی ڈھونڈ نہیں سکے۔ ہم لوگ تو اس لئےآئے تھے کہ اس کی پھوپھی نے شک کا اظہار کیا تھا کہ بچے کو تندوا ہے،جس کی وجہ سے  یہ زیادہ باتیں نہیں کرتا، اورآپ صحیح تشخیص نہیں کر سکے۔ میں نے ایک سرد آہ بھری اور ڈسپنسر کو کہا انہیں جانے دو۔ مرد نے میرا لکھا ہوا نسخہ میری میز پر پھینکا اور کمرے سے نکل گیا۔ اور میں دیر تک بیٹھا سوچتا رہا کہ میری غلطی کہاں پر تھی؟؟ کیا میں واقعی تشخیص کرنے میں ناکام ہوگیا تھا یا پھر اس کا ذمہ دار شعبہ طب کا وہ نظام ہے جو ڈاکٹرز کو نبض کے علوم  سکھانے میں ناکام ہے؟ نبض بھی مریض کی نہیں اس کے باپ کی
میم سین

تندوا= tongue tie

No comments:

Post a Comment