Monday, November 25, 2013

حیرت

سکتے والی بات تو تھی ! میں کیا کہتا ؟ کیا جواب دیتا ؟۔ اپنا کیا ردعمل ظاہر کرتا؟ ۔ مجھے تو کچھ سجھائی ہی نہ دیا۔سب کچھ اتنا غیر متوقع اور اچانک تھا کہ میں ساری صورتحال کو سمجھ ہی نہیں پایا
تیز بخار ، کانپتے جسم اوراکھڑے ہوئے سانس کے ساتھ صفیہ بیگم جب پہلی بار میرے پاس آئی تھی۔تو شائد مارچ کا مہینہ تھا۔ جب میں نے چیک اپ کرنے کے بعد اسے دوائی لکھ کر دی تو اس کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور کہنے لگی کہ بیوہ عورت ہوں ۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ۔دوا کے پیسے نہیں ہیں ۔ کچھ خدا ترسی کر دیں۔ میں نے پرچی پکڑی اور اس پر پر فری لکھ کراسے تھما دی کہ فکر نہ کریں ۔ دوائی مفت مل جائے گی۔ اور وہ ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوگئی۔رمضان کے مہینے میں ایک بار پھر بخار کے ساتھ آئی اور اپنی دوائی لینے کے بعد کہنے لگی۔رمضان کا مہینہ ہے۔اپنی زکواۃ نکالتے وقت مجھے بھی یاد رکھیئے گا۔ اس وقت جو کچھ ہوسکتا تھا میں نے اس کی مدد کر دی۔ اور وہ ایک بار پھردعائیں دیتی رخصت ہوگئی۔ یہ کل دوپہر کی بات ہے۔ جب وہ میرے پاس آئی۔ لیکن اس بار وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ چہرہ کو چادر سے چھپائے اٹھارہ انیس سال کی جوان لڑکی بھی تھی۔ کرسی پر بیٹھتے ہی صفیہ بیگم نے اسے نقاب ہٹانے اور مجھے سلام کرنے کا کہا تو اس نے ہچکچاتے ہوئے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور ایک جھجک اور حیا سے سلام کیا ۔میں اب بھی اس انتظار میں تھا کہ وہ لڑکی کی تکلیف یا بیماری کے بارے میں کچھ بتائے تو میں اپنی رائے دوں۔ لیکن صفیہ بیگم نے بیماری کی تفصیل میں جانے کی بجائے بتانا شروع کیاکہ یہ میری بڑی بیٹی روبینہ ہے۔ پانچویں پاس ہے۔ اور قران پاک بھی پورا پڑھا ہوا ہے۔ اور ماشاللہ اس برس اٹھارہ سال کی ہوگئی ہے، اتنی سگھڑ ہے کہ سارے گھر کو اسی نے سنبھالا ہوا ہے۔
جی اچھا میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی  سر اثبات میں ہلایا اور پوچھا تو پھر؟ میرے  پوچھنے پر اس نے لڑکی کو کمرے سےباہر جانے کو کہا اور کرسی کھینچ کر میرے قریب کر لی اور بولی ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس ہزروں لوگ آتے ہیں ۔ کوئی مناسب خاندان دیکھ کر اس کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ ہی ڈھونڈ دیں۔
میم سین
نومبر 26،2013

1 comment:

  1. سوِویں پوسٹ پر سو بار مبارک۔ ذوالقرنین

    ReplyDelete