Wednesday, November 20, 2013

نصیحت


چوہدری رمضان پٹواری کا ایک عرصے سے میرے پاس آنا جاناہے ۔کوئی پنتالیس پچاس سال کے پیٹے میں ہیں اور کئی سالوں سے شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ لیکن کبھی اپنی صحت پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ کچھ تو نوکری کی نوعیت ایسی ہے کہ پرہیز کرنا خاصا مشکل ہے۔اور کچھ اپنے بارے میں خود بھی لاپرواہ ہیں۔  دوائی پابندی سے استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی پرہیز کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔زمیندار گھرانے سے تعلق ہے۔ اور اچھی خاصی خاندانی جائیداد  ہے اور پٹواری کو تو ویسے بھی روزانہ تنخواہ ملتی ہے، اس لئے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن ان کے خاندان میں پریشانی کا سبب ان کے ہاں نرینہ اولاد کا نہ ہونا ہے۔ آخر اتنی بڑی جائیداد کو کون سنبھالے گا؟ کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلےایک دن شام کو میرے پاس تشریف لائے تو خاصے پرجوش تھے۔ کہنے لگے یار میری شوگر کو فوراً قابو کرو اور ایسی دوائی دو کہ میں ایک نوجوان بن جاؤں ۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ خیریت تو ہے یہ آج اچانک صحت کی فکر کہاں سے امڈ آئی ہے؟ کہنے لگے کہ آپ کو تو پتا ہے اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اور اب میرے خاندان والوں نے میری دوسری شادی کا پروگرام بنایا ہے۔ رشتہ بھی طے ہوگیا ہے اور اور اگلے مہینے رخصتی بھی طے پا گئی ہے۔ بس مجھے ایک بار جوان کر دو۔ میں نے ضروری پرہیز اور دوایاں تجویز کیں اور سختی سےشوگر کنٹرول کرنے کو کہا۔ پٹواری صاحب دو ماہ بعد دوبارہ نظر آئے تو خوشی اور مسرت ان کے لہجے اور چہرے کے تاثرات سے نمایاں تھی۔ کہنے لگے ڈاکٹر کیا بتاؤں ، اللہ نے تو مجھے دنیا میں ہی حورعطا کر دی ہے۔ اس نے مجھے وہ خوشیاں دے ڈالی ہیں کہ  جن کا میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔جتنی دیر میرے پاس بیٹھے رہے،اپنی حور پری کے گن گاتے رہے۔ اس کے بعد پٹواری صاحب تو نظر نہیں آئے ۔لیکن کسی دوست کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اللہ نے ان کو بیٹا عطا کیا ہے۔ کوئی ڈیڑھ سال بعد پرسوں کلینک آئے تو خاصے کمزور  دکھائی دیئے۔ میں نے ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ لگتا ہے شوگر کو پھر سے نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن انہوں نے مختصر سا جواب دیا بس کچھ ایسا ہی ہے۔ اور روٹین کی باتیں کیں۔کچھ ادھر ادھر کے قصے سنائے ، جن میں مایوسی کا عنصر خاصا غالب تھا۔ اٹھ کر جانے لگے تو کہنے لگے، ڈاکٹر ایک نصیحت کروں گا، پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کبھی نہ کرنا ۔زندگی جہنم بن جاتی ہے
میم سین
نومبر 20، 2013

No comments:

Post a Comment