Thursday, November 14, 2013

ادھورے خواب


ہم ادھورے معاشرے کے ادھورے لوگ ہیں۔ جن کی خواہشیں بھی ادھوری اور خواب بھی ادھورے ہیں۔ ہم برائی کے خلاف لڑنا بھی چاہتے ہین تو ادھورے منصوبوں کے ساتھ، نیکی بھی کمانا چاہتے ہیں لیکن ادھورے جذبوں کے ساتھ۔ ہم کب مکمل ہوں گے؟ ہم کب احساس کے سمندر سے پانی کی بوندیں کو اپنے جسموں پر بہانے کے قابل ہونگے، شائد ایک یہی سوال ہے جس کا جواب ابھی تک تشنہ لب ہے۔ بات جہیز  لینے کی نہیں ہے بلکہ معاشرے کے  اس تضاد کی ہے جس میں ہم سانسیں لے رہے ہیں۔ بات جہیز دینے کی نہیں ہے بلکہ ان سماجی رسوم کی ہے جس کے ساتھ ہم جکڑے ہوئے ہیں۔جہیز کی لعنت معاشرے کی تکمیل کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی۔ اور معاشرہ نام ہے انصاف، عزت نفس اور شرافت کے ساتھ رہنے کا۔معاشرے کی تکمیل اس وقت تک  نہیں ہوسکتی جب تک اس کی تہذیبی اکائی کی بنیاد انسانیت پر نہ ہو۔ تہذیب خوبصورت ہوگی جب ہم زندگی کے ہر پہلو کو خؤبصورت بنائیں گےلیکن جس تہذیب کی بنیاد میں جھوٹ اور فریب کی چھینٹے ہوں ، جس ثقافت پر ناانصافی اور نظریاتی الجھنوں کے بادل ہوں، وہاں تہذیبی قدروں کی بات کرنا ہی بے معنی ہے ، تکمیل انسانی کا درس  لاحاصل ہے۔  جہیز کو لعنت قرار دینے سے پہلے ، جہیز پر تنقید کرنے سے پہلے معاشرے کے ان پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے جس نے ہمارے گرد کسی آسیب کی طرح ایک ھیولہ بنا رکھا جس میں ہمارا اجتماعی اور انفرادی کردار کسی دھندلکے کا شکار ہوکر رہ گیا ہے۔ ایسی ان دیکھی رویات ہیں جن سے دامن چھڑانا ہمارے بس میں نہیں رہتا۔ ایسے ہی بے شمار رشتے ہیں جو ہمیں مجبور کر دیتے ہیں۔ جہیز کے خلاف نعرہ بلند کر دینے سے پہلے ہم ایک حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہم نہ تو ایک فلاحی معاشرے مین رہ رہے ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اسلامی حمیت اتنی ہےکہ ہم اس کی خاطر ان رسم ورواج کے خلاف  علم بلند کر سکیں۔ اور جب معاشرتی حقائق کا ادراک کئے بغیر ہم تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں تو پھر جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ بہت بھیانک اور درد سے بھرپور ہوتے ہیں۔ایک ایسا انجام جو عورت کو اس کی اپنی ہی نظر میں حقیر بنا دیتا ہے ۔جو اس کی زندگی کو ہر جذبے اور احساس سے خالی کر دیتا ہے۔اور ایک انتقام کی جلن کسک بن کر اس کے وجود میں پروان چڑھتی رہتی ہے۔عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہے اور عورت ہی اس بیماری کا کوئی حل ڈھونڈنے میں رکاوٹ ہے۔ بات صرف لڑکے کی جانب سے قدم اٹھانے کی نہیں ہے، بات صرف جہیز لینے سے انکار کا حوصلہ پیدا کرنے کی نہیں ہے۔ بات تو اسی معاشرے میں ان دلیرانہ اقدام کے بعد رہنے کی ہے۔رائج قوانین سے رو گردانی سے معاشرتی قوانین کی رگ حمایئت کے بھڑک اٹھنے پر ان کا سامنا کرنے کی ہے ۔ بڑے بھائی کی بیوی جب جہیز کا ٹرک گھر لیکرآتی ہے اور چھوٹا بھائی جہیز کو لعنت قرار دے کر لینے سے انکار کرتا ہے تو کیا بھابھیاں  جینے دیں گی؟؟؟ کیا ساس کے طعنے اس کی فطرت سے نکل سکیں گے؟ جہیز کا المیہ عورت کا ہے اور عورت کا ہی پیدا کیا ہوا ہے۔ اور اس کا حل مرد کیسے ڈھونڈ سکتا ہے؟؟ مسئلے کا حل صرف جہیز سے انکار نہیں ہے بلکہ اپنی خاندانی روایات کے خلاف بغاوت بھی ہے۔ عورت کو ایک الگ گھر لیکر دینے کیلئے بھی مہم سازی کی ضرورت ہوگی۔جہیز سے انکار سے پہلے لڑکے کو اپنی مالی حیثیت کو بھی اتنا مضبوط کرنا ہو گا جس میں وہ لڑکی کو خاندانی مایوسی اور طعنوں سے تحفظ بھی دے سکے۔اسے اپنی وارفتگی سے آگاہ کرنا ہوگا۔معاشرے کی طرف سے دلائے گئے احساس محرومی کے ازالے کیلئے اس کی دکھی روح کو سہارا بھی دینا ہوگا۔لیکن کیا ہم میں اتنا حوصلہ ہے کہ ہم ہوا کی مخالف سمت سفر کر سکیں؟سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کو چیلنج کر کے ان کا دفاع کر سکیں؟ آندھیاں آئیں یا طوفان ان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹ جانے کا حوصلہ ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ جہیز کے شکنجہ کی ایک بڑی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ کیا مشترکہ خاندانی نظام کے خلاف لڑنے کا بھی کوئی عزم ہے ؟مشترکہ خاندانی نظام کی خواہشوں، تمنائوں، اور امیدوں کا گلا گھونٹنے کی بھی سکت  ہے؟؟ ۔ عورت نے اسی معاشرے میں رہنا ہےاسی دوغلے اور منافق معاشرے کی موشگافیوں کے ہمراہ جینا ہے ۔ مرد مضبوط ہو بھی جائے تو کیا ہوا؟ عورت نے تو معاشرے کے بے آبرو اور بے پردہ درد کو سہنا ہے۔ ماں باپ سے لیکر سسرال کے طعنوں کو جھیلنا ہے، بھابھیوں ، دیور ، جیٹھ، کے ساتھ معرکہ آرائی میں نبرد آزما ہونا ہے۔ لڑکے کے تایا ، چچا، پھوپھیاں بھی  میدان میں ہونگی ۔ دور کے رشتوں کا تو ابھی ذکر ہی نہیں ہے۔ اور لڑکی کے والدین نے بھی خاندان والوں کو جواب دینا ہے۔۔کیا سماج کی سیاہ چادر میں دفن ہونے سے وہ خود کو روک پائی گی؟  ہمیں صرف جہیز کے خلاف ہی نہیں بلکہ صدیوں سے قائم رویات کو بھی توڑنا پڑے گا۔ ۔لیکن کیا لڑکے کے یہ سارے انقلابی اقدام ان سارے لوگوں کی زبان بند کر سکے گا جن کے سوالیہ لہجوں میں طنز کا زہر زیادہ غالب اور آگہی کی طلب کم ہوتی ہے لڑکی کے گر دکسی پر آشوب اژدھے کی طرح پھن پھیلائے ساری عمر تعاقب کرتے ہیں۔
میم سین
نومبر 14، 2013

No comments:

Post a Comment