Thursday, November 7, 2013

بلا عنوان

ایک مشہور مصنف نے کہیں لکھا تھا کہ "اپنا پہلا افسانہ لیکر ایک ادبی مجلے کے ایڈیٹرسے ملنے گیا تو ، افسانہ پڑھنے کے بعد ایڈیٹر نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے چھاپنے کا عندیہ دیا ۔ میں نے جب معاوضے کی بات کی تو اس نے جواب دیا کہ یہ تو قارئین کی پسند اور تنقید پر منحصر ہے۔اور میں نے واپس آکر اپنے دوستوں کو اس کام پر لگا دیا کہ وہ افسانہ کے بارے میں تعریفی کلمات اور مراسلے ایڈیٹر کے نام بھیجیں۔اور جب ایڈیٹر صاحب سے دوبارہ ملاقات کیلئے گیا تو مجھ سے مخاطب ہو کر اپنی حیرت سے آگاہ کیا کہ ہمارا رسالہ اتنا بکتا نہیں ، جتنا پڑھا جاتا ہے اور مجھے باقاعدگی سے لکھنے کی درخواست کی تو مجھے ان کی بات سمجھ میں آگئی کہ میری ترکیب کامیاب ہوگئی ہے
کچھ ایسی ہی کہانی  ہمارے ایک عالم دین کے ساتھ جوڑی جاتی ہے۔جن کو ایک اہم شخصیت کی مداخلت پر پی ٹی وی پرایک دینی پروگرام پیش کرنےکی ذمہ داری سونپی گئی۔لیکن جس دن پہلی قسط نے نشر ہونا تھا ، کچھ ناگزیر وجوھات کی بنا پر نشر نہ ہوسکی۔لیکن اگلے چند دنوں میں بوریاں بھر کر تعریفی خطوط پروڈیوسر کو پیش کئے گئے تو پروڈیوسر کا ایک بار ماتھا ضرور ٹھنکا۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے ہمسائیہ ملک میں ٹی وی پر ہونے والے گائیکی اور دوسرے مقابلوں کی ہے جس میں جب سامعین کے ووٹ کو کلیدی جگہ دی گئی تو پھر موبائل کی سموں کی فروخت میں اضافہ ہوگیا تھا۔بلکہ جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کیلئے لوگ مہیا کرنے والوں کی طرح مقابلوں میں ووٹ مہیا کرنے کیلئے بھی ادارے وجود میں آگئے جو پیسے لیکر مطلوبہ ووٹ فراہم کرتے تھے
مجھے یہ سب باتیں اسلئے یاد آگئیں کہ چند دن پہلے ایک دوست کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ۔ اسے کچھ کام تھا مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر خود کہیں چلا گیا ۔جہاں اس کا چھوٹا بھائی  لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔میں نے غور سے دیکھا تو چا رمختلف براؤذر کھلے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی اور ان براؤذر کا مقصد پوچھا تو اس نے جواب دیا ۔ اس لئے کہ ایک براؤذر میں فیس بک کا  صرف ایک ہی اکاؤنٹ کھل سکتا ہے۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تو اس کامطلب ہے کہ فیک اکاؤنٹ آپریٹ ہورہے ہیں ؟ ہم سے تو ایک اپنا اکاؤنٹ ہی سنبھالا نہیں جاتا اور  تم چار چار اکاؤنٹس کا انتظام کیسے سنبھالتے ہو؟ اس پر وہ مسکرادیا اورایک فائل کھول کر دکھائی جس میں کوئی پندرہ بیس کے قریب آئی ڈیز لکھی ہوئی تھیں اور ان کے سامنے ان کے پاسورڈ درج تھے۔ ابھی اسی ذہنی کشمکش مبتلا تھا کہ اس کے پیچھے کون سا راز پنہا ہے، اس نے خود ہی وضاحت کر دی کہ وہ ایک سیاسی تنظیم کے یوتھ ونگ کیلئے کام کرتا ہے ۔الیکشن سے پہلے ساری آڈیز استعمال میں تھیں لیکن آجکل صرف چار تک محدود ہے ۔
"سیف" انداز جہاں کا رنگ بدل جاتا ہے 
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نئی ہے
میم سین

No comments:

Post a Comment