Wednesday, March 12, 2014

میرے قلم سے

کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے پیشہ وارانہ امور کی سرانجام دہی میں ناکام ہوں۔ اور اس بات کا احساس، شدت سے ہوتا ہے ،جب میں مریضوں کے سوالوں کے سامنے لاجواب ہوجاتا ہوں ۔ ابھی کل کی ہی بات ہے کہ ایک خاتون ایک ماہ کے بچے کو پیٹ میں درد اور بہت زیادہ رونے کی شکائیت کے ساتھ لے کر آئی ۔ میں نے جب بچے کے دودھ کے بارے میں پوچھا تو ماں نے جواب دیا، دودھ تو میں صرف ماں کا ہی دیتی ہوں لیکن ویسے یہ جو س بھی پی لیتا ہے اور دہی اور دلیا بھی شوق سے کھا لیتا ہے۔شہد بھی دے دہتی ہوں۔میں نے مسکراتے ہوئے کہا اسے یخنی بھی پلا دینی تھی۔ماں نے میرے طنز کو نظرانداز کرتے ہوئے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب دیسی مرغی کی یا پھر برائلر سے بھی کام چل جائے گا؟؟؟
اور اس دن جب تین ماہ کے بچے کو تیز بخار کے ساتھ دوبارہ میرے پاس لایا گیا تو والدین کی زبان پر ایک ہی شکوہ تھا کہ ہم تو بڑی امید کے ساتھ آپ کے پاس آئے تھے۔ تین دن پہلے دوائی لیکر گئے تھے لیکن ذرا سا بھی آرام نہیں آیا بلکہ بچے کی طبیعت تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگئی ہے۔میں نے پوچھا کہ جو دوائی میں نے دی تھی وہ ختم ہوگئی ہے؟ تو جواب آیا وہ تواس دن آپ کے کلینک سے گھر جاتے ہوئے گم ہوگئی تھی ۔لیکن بچے کا آپ سے چیک اپ کروایا تھا، کچھ تو فرق پڑنا چایئے تھا
لگتا ہے طبی علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ مجھے سفلی علوم سیکھنے پر بھی توجہ دینی چاہیئے؟؟
میم سین

No comments:

Post a Comment