پرسوں ایک محفل میں بیٹھا تھا ۔جہاں گفتگو کا موضوع حالات حاضرہ اور ملکی صورتحال تھی۔ بار بار گفتگو میں مہنگائی اور افراطِ زر کا زکر آرھا تھا ۔ایک بزرگ نے افراط زر کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا بلا ہے؟ تو سب کو سانپ سونگھ گئے کیونکہ کوئی بھی اس کے بارے میں واضح لفظوں میں نہیں جانتا تھا۔اور جب میں نے تھوڑی سی وضاحت کی تو سب کی سمجھ میں آگیا۔ سوچا اس مختصر سی معلومات کو دوستوں سے شیئر کرلوں
ہمارے کرنسی نوٹ کی مالیت کا انحصار ہمارے پاس موجود سونے کے ذخیروں پر ہوتا ہے۔ بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال دوں گا کہ اگر ہمارے پاس ایک کلو سونا ہے اور سٹیٹ بینک اس کے بدلے میں ایک ہزار نوٹ چھاپ دیتا ہے۔یعنی ایک گرام سونے کے بدلے ایک روپیہ۔اگر آپ کوئی ایسی چیز خریدتے ہیں جس کی قیمت ایک گرام سونا ہے تو آپ اس کو ایک گرام سونے کی جگہ پر ایک روپیہ دے دیں گے۔ لیکن اگر سٹیٹ بینک ایک کلو سونے کے بدلے دو ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو آپ کو ایک گرام سونے والی چیز کے بدلے دو روپے کے نوٹ دینا پڑیں گے۔ اسی طرح سونا ایک کلو ہی ہے اور سٹیٹ بینک پانچ ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو ایک گرام سونے والی چیز کیلئے آپ کو پانچ نوٹ دینا پڑیں گے۔یعنی اگر سونے کی مقدار بڑھائے بغیر نوٹ چھاپتے رہیں گے تو آپ کو چیز خریدتے وقت زیادہ نوٹوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اور یہی روپے کی مالیت میں کمی کا نام افراط زر ہے۔کہنے کو تو میں نے کہ دیا ہے کہ کرنسی کی مالیت کا دارومدار سونے کی مالیت پر ہے لیکن عملی طور ایسا نہیں ہے بلکہ 1944کے بریٹن وڈزکے معاہدے کے بعد ڈالر کو کرنسی کا معیار بنا دیا گیا تھا۔ جس کے مطابق ایک اونس سونے کی قیمت پینتیس ڈالر مقرر کر دی گئی تھی اور دنیا میں جتنی بھی کرنسی کا کاروبار ہونا تھا اس کیلئے ڈالر معیار بنا دیا گیا۔ویتنام کی جنگ کے بعد جب ڈالر مشکلات کا شکار تھا تو جرمنی نے اس معاہدے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ سے سونے کا مطالبہ کر دیا تھا اور جرمنی کی دیکھا دیکھی یورپ کے کئی دوسرے ممالک نے بھی ڈالر کی بجائے سونے میں کاروبار شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا جن میں فرانس سرفہرست تھا۔
انیس سو اکہتر میں آخری شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اپنے اصل سونے کی قیمت سے تین گنا زیادہ نوٹ چھاپ چکا تھا ۔ لیکن اس کے بعد کتنے نوٹ چھپے ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔ اور عربوں سے تیل کی ساری تجارت ہی نوٹ چھاپ کر کی گئی ہے۔2007 کے معاشی بحران سے لیکر آج تک تو کھربوں کےحساب سے ڈالر چھاپا جا چکا ہے ۔لیکن امریکہ نے پوری دنیا میں دھونس اور دھاندلی مچا کر ساری دنیا کو ڈالر کی اصل مالیت سے بے خبر رکھا ہوا ہے۔اگرچہ جرمنی کی جانب سے معاہدہ توڑے جانے کے بعد بریٹن وڈز کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا اورآج ہر ملک اپنی کرنسی چھاپ سکتا ہے لیکن آج بھی بین الاقوامی کرنسی کا درجہ امریکہ کے ڈالر کو حاصل ہے۔اسلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت کا اندازہ اسکے پاس موجود امریکی ڈالر کے ذخیروں سے لگایا جاتا ہے
سونے کی بات آئی تو معلومات کیلئے عرض کروں کہ سونے کے معیار کی اکائی قیراط ہوتی ہے اور خالص ترین سونا چوبیس قیراط کا ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔مشرق وسطی میں زیورات میں بائیس قیراط والاسونا استعمال ہوتا ہے جب کہ یورپ میں زیورات میں اٹھارہ قیراط سے کم اور امریکہ میں چودہ قیراط سے کم کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔دس قیراط سے کم کے سونے کو سونا نہیں کہا جاتا
میم سین
ہمارے کرنسی نوٹ کی مالیت کا انحصار ہمارے پاس موجود سونے کے ذخیروں پر ہوتا ہے۔ بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال دوں گا کہ اگر ہمارے پاس ایک کلو سونا ہے اور سٹیٹ بینک اس کے بدلے میں ایک ہزار نوٹ چھاپ دیتا ہے۔یعنی ایک گرام سونے کے بدلے ایک روپیہ۔اگر آپ کوئی ایسی چیز خریدتے ہیں جس کی قیمت ایک گرام سونا ہے تو آپ اس کو ایک گرام سونے کی جگہ پر ایک روپیہ دے دیں گے۔ لیکن اگر سٹیٹ بینک ایک کلو سونے کے بدلے دو ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو آپ کو ایک گرام سونے والی چیز کے بدلے دو روپے کے نوٹ دینا پڑیں گے۔ اسی طرح سونا ایک کلو ہی ہے اور سٹیٹ بینک پانچ ہزار کے نوٹ چھاپ دیتا ہے تو ایک گرام سونے والی چیز کیلئے آپ کو پانچ نوٹ دینا پڑیں گے۔یعنی اگر سونے کی مقدار بڑھائے بغیر نوٹ چھاپتے رہیں گے تو آپ کو چیز خریدتے وقت زیادہ نوٹوں کی ادائیگی کرنا پڑے گی۔ اور یہی روپے کی مالیت میں کمی کا نام افراط زر ہے۔کہنے کو تو میں نے کہ دیا ہے کہ کرنسی کی مالیت کا دارومدار سونے کی مالیت پر ہے لیکن عملی طور ایسا نہیں ہے بلکہ 1944کے بریٹن وڈزکے معاہدے کے بعد ڈالر کو کرنسی کا معیار بنا دیا گیا تھا۔ جس کے مطابق ایک اونس سونے کی قیمت پینتیس ڈالر مقرر کر دی گئی تھی اور دنیا میں جتنی بھی کرنسی کا کاروبار ہونا تھا اس کیلئے ڈالر معیار بنا دیا گیا۔ویتنام کی جنگ کے بعد جب ڈالر مشکلات کا شکار تھا تو جرمنی نے اس معاہدے سے انکار کرتے ہوئے امریکہ سے سونے کا مطالبہ کر دیا تھا اور جرمنی کی دیکھا دیکھی یورپ کے کئی دوسرے ممالک نے بھی ڈالر کی بجائے سونے میں کاروبار شروع کرنے کا مطالبہ کر دیا جن میں فرانس سرفہرست تھا۔
انیس سو اکہتر میں آخری شائع ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ اپنے اصل سونے کی قیمت سے تین گنا زیادہ نوٹ چھاپ چکا تھا ۔ لیکن اس کے بعد کتنے نوٹ چھپے ہیں کسی کو کچھ علم نہیں۔ اور عربوں سے تیل کی ساری تجارت ہی نوٹ چھاپ کر کی گئی ہے۔2007 کے معاشی بحران سے لیکر آج تک تو کھربوں کےحساب سے ڈالر چھاپا جا چکا ہے ۔لیکن امریکہ نے پوری دنیا میں دھونس اور دھاندلی مچا کر ساری دنیا کو ڈالر کی اصل مالیت سے بے خبر رکھا ہوا ہے۔اگرچہ جرمنی کی جانب سے معاہدہ توڑے جانے کے بعد بریٹن وڈز کا معاہدہ ختم ہوگیا تھا اورآج ہر ملک اپنی کرنسی چھاپ سکتا ہے لیکن آج بھی بین الاقوامی کرنسی کا درجہ امریکہ کے ڈالر کو حاصل ہے۔اسلئے کسی ملک کی مضبوط معیشت کا اندازہ اسکے پاس موجود امریکی ڈالر کے ذخیروں سے لگایا جاتا ہے
سونے کی بات آئی تو معلومات کیلئے عرض کروں کہ سونے کے معیار کی اکائی قیراط ہوتی ہے اور خالص ترین سونا چوبیس قیراط کا ہوتا ہے لیکن عملی طور پر دستیاب نہیں ہوتا۔مشرق وسطی میں زیورات میں بائیس قیراط والاسونا استعمال ہوتا ہے جب کہ یورپ میں زیورات میں اٹھارہ قیراط سے کم اور امریکہ میں چودہ قیراط سے کم کا سونا استعمال کیا جاتا ہے۔دس قیراط سے کم کے سونے کو سونا نہیں کہا جاتا
میم سین
No comments:
Post a Comment