ایک لمحے کو سوچ دل میں آتی ہے اورزندگی اپنی نزاکتوں کے ساتھ ،سامنے ڈگمگاتی ہوئی نظر بھی آتی ہے لیکن پھر بھی ہم موت سے اپنی نظریں چرا لیتے ہیں۔وقت ہماری زندگیوں کو کسی دیمک کی طرح کھا رھا ہے،جب کوئی چیز کم ہورہی ہو تو پھر وہ ایک دن ختم بھی ہوجاتی ہے۔جب موت اس قدر برحق ہے اور زندگی اس قدر غیر یقینی ہے تو پھر ہم کس لئے اس دنیا میں آئے ہیں؟
ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ‘‘ ( الذاریات : 58۔56
لیکن دنیا کتنی قیمتی جگہ ہے؟ اس میں کس طرح رہا جائے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کریگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں
۔ہاؤس جاب کے دوران دس بارہ سال کی ایک بچی فاطمہ مرگی کے دوروں کے ساتھ ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔اس کے دوروں کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں موجود ہر دوا اور ہر کمبینیشن استعمال کر ڈالا لیکن اسے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے جھٹکے شروع ہوجاتے اور اپنی مرضی سے رک جاتے۔ اور کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ گزر نے کے بعد اس کے جھٹکے کنٹرول ہونا شروع ہوئے تو ہسپتال سے رخصتی ہوئ۔ میں جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سنتا یا پڑھتا ہوں کہ دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر تو مجھے فاطمہ اور اس کی بیماری یاد آجاتی ہے۔ڈیڑھ دو ماہ کے اس دوران نہ تو اس کے گھر والوں نے ضرورت سے زائد کوئی چیز ہسپتال میں لے کر آئے اور نہ ہی لمبے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ جمع کرکے رکھا اور اتنے طویل قیام کے باوجود بھی ہمیشہ ان کی نظر وہاں سے جانے پر ہوتی تھی
ہم اپنا بچپن گزار چکے ہیں، کچھ جوانی گزار رہے ہیں اور کچھ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ سنی سنائی باتیں نہ سہی لیکن جو وقت ہم گزار چکے ہیں، اس کے گواہ تو ہم ہیں۔ اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ موت برحق ہےتو پھر اس کو یاد رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔نہ تو مولویوں کو برا بھلا کہنے سے رکنے والی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے نظریں چرا لینے سے ٹلے گی۔ لیکن ڈر تو اس بات سے لگتا کہ کہیں کل قیامت کے روز ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوگا جن کے بارے مین قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ۔
قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے۔
( الروم : 55 )
اور میں اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکوں گا جب میرا قرآن یہ کہ رھا ہے
اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔
( ق : 19 )
ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں اور تصور کریں کہ جب لوگ ہمیں مٹی کے حوالے کرکے خود لوٹ جائیں گے،کوئی دوست ، والدین، اولاد ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہونگے۔ مٹی میں دبے جانے والوں کےقدموں کو سن رہے ہونگے۔ چیخیں، پکاڑیں۔۔۔ لیکن کوئی سن نہیں پائے گا۔کتنا سخت اور ہولناک منظر ہوگا۔ساری خواہشیں اور تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔کاش ہمارا معاملہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ ساری کوتاہیوں اور سستیوں پر پردہ پر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔وہاں تو حساب دینے ہیں۔۔اللہ سے دعا ہے ہمیں اس دن کی سختی سے بچائے۔ قبر میں آسانی نصیب فرمائے۔روزآخرت کے دن جہنم سے نجات فرمائے آمین۔
میم سین
ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟
ہمیں کیوں پیدا کیا گیا ہے؟؟
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ یقیناًاللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ‘‘ ( الذاریات : 58۔56
لیکن دنیا کتنی قیمتی جگہ ہے؟ اس میں کس طرح رہا جائے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند کریگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ اور فرمایا آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے۔ دنیا کی حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے قطرے کی سمندر کے مقابلے میں
۔ہاؤس جاب کے دوران دس بارہ سال کی ایک بچی فاطمہ مرگی کے دوروں کے ساتھ ایمرجنسی میں داخل ہوئی۔اس کے دوروں کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی دوائی اس پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ مارکیٹ میں موجود ہر دوا اور ہر کمبینیشن استعمال کر ڈالا لیکن اسے افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ اپنی مرضی سے جھٹکے شروع ہوجاتے اور اپنی مرضی سے رک جاتے۔ اور کوئی لگ بھگ ڈیڑھ سے دو ماہ کا عرصہ گزر نے کے بعد اس کے جھٹکے کنٹرول ہونا شروع ہوئے تو ہسپتال سے رخصتی ہوئ۔ میں جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو سنتا یا پڑھتا ہوں کہ دنیا اس طرح بسر کرو جیسے کوئی پردیسی یا مسافر تو مجھے فاطمہ اور اس کی بیماری یاد آجاتی ہے۔ڈیڑھ دو ماہ کے اس دوران نہ تو اس کے گھر والوں نے ضرورت سے زائد کوئی چیز ہسپتال میں لے کر آئے اور نہ ہی لمبے قیام کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ جمع کرکے رکھا اور اتنے طویل قیام کے باوجود بھی ہمیشہ ان کی نظر وہاں سے جانے پر ہوتی تھی
ہم اپنا بچپن گزار چکے ہیں، کچھ جوانی گزار رہے ہیں اور کچھ بڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں۔ سنی سنائی باتیں نہ سہی لیکن جو وقت ہم گزار چکے ہیں، اس کے گواہ تو ہم ہیں۔ اوراس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ موت برحق ہےتو پھر اس کو یاد رکھنے میں کیا مضائقہ ہے۔نہ تو مولویوں کو برا بھلا کہنے سے رکنے والی ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے نظریں چرا لینے سے ٹلے گی۔ لیکن ڈر تو اس بات سے لگتا کہ کہیں کل قیامت کے روز ہمارا شمار ان لوگوں میں تو نہیں ہوگا جن کے بارے مین قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ۔
قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے۔
( الروم : 55 )
اور میں اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کرسکوں گا جب میرا قرآن یہ کہ رھا ہے
اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا۔
( ق : 19 )
ایک لمحے کو آنکھیں بند کر لیں اور تصور کریں کہ جب لوگ ہمیں مٹی کے حوالے کرکے خود لوٹ جائیں گے،کوئی دوست ، والدین، اولاد ہماری کوئی مدد کرنے سے قاصر ہونگے۔ مٹی میں دبے جانے والوں کےقدموں کو سن رہے ہونگے۔ چیخیں، پکاڑیں۔۔۔ لیکن کوئی سن نہیں پائے گا۔کتنا سخت اور ہولناک منظر ہوگا۔ساری خواہشیں اور تمنائیں دھری کی دھری رہ جائیں گی۔کاش ہمارا معاملہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوجاتا ۔ ساری کوتاہیوں اور سستیوں پر پردہ پر جاتا۔ لیکن ایسا نہیں ہونے والا۔وہاں تو حساب دینے ہیں۔۔اللہ سے دعا ہے ہمیں اس دن کی سختی سے بچائے۔ قبر میں آسانی نصیب فرمائے۔روزآخرت کے دن جہنم سے نجات فرمائے آمین۔
میم سین
aaj kamali by pass pr aankho k saamne kai zindgio k charagh gull hote dekhe .....aur zindgi ki haqeqat aik dafaphr ayaan hogai
ReplyDelete