Thursday, June 12, 2014

محاورے

میرا ہمیشہ سے خیال رھا ہے کہ محاورے لفظوں کا وہ گھورکھ دھندہ ہیں، جن کی حقیقت تو مشکوک ہوتی ہے لیکن ہمیشہ کسی بھی بحث میں دلائل کا وزن بڑھانے کے کام آتے ہیں ۔ لیکن اب مجھے یقین آگیا ہے کہ محاورے عاریتاً لئے الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ وقت کی آنچ میں پک کر سچائی کا ایک اظہار ہوتے ہیں
ناہید نے بی اے کر لیا تو گھرداری کی ذمہ داری اس کے حوالے کر دی گئی۔ ہر متوسط گھرانے کی طرح اس کے والدین کو بھی اس کے رشتے کی فکر شروع ہوگئی۔ کچھ وچولنوں سے بھی مدد چاہی تھی ۔ خاندان میں بھی لڑکے دیکھے جارہے تھے،۔کچھ دوستوں اور قریبی احباب کو بھی اس معاملے میں مدد کرنے کو کہہ رکھا تھا۔ لیکن بی اے کئے چار سال گزر چکے تھے لیکن ابھی تک کوئی مناسب لڑکا مل نہیں سکا تھا۔اور ناہید کی ماں ایک روایتی ماں کی طرح اس غم میں گھٹی جارہی تھی کہ سب سے بڑی کا رشتہ کہیں طے پائے تو دوسروں کی بھی باری آئے۔
فروری کا مہینہ تھا  اور دوپہر کا وقت  ۔ بچے سکول گئے ہوئے تھے کہ گھر پر دستک ہوئی ۔ دروازہ کھولا تو ایک مرد اور دو خواتین سامنے کھڑی تھیں۔ سلام کے انداز اور ظاہری حلئے سے کسی معزز گھرانے سے لگ رہے تھے۔ جب اپنی آمد کی وجہ اپنے بیٹے کیلئے رشتے کی تلاش بتایا تو    ناہید کی ماں نے فوراً ہی ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا اور ان کو اندر بٹھا دیا ۔ بوتلیں پیش کیں ،چائے کا پوچھا۔جب بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ مہمان غلط گھر میں آگئے ہیں اور جس گھرانے کے بارے میں ان کو بتایا گیا تھا وہ اگلی گلی میں تھا۔ مہمانوں نے اپنی شرمندگی کااظہار کیا اور معذرت بھی کی اور درست پتا معلوم کرکے اجازت چاہی ۔
ایک دو دن اس بات کا چرچا گھر میں رھا لیکن پھر سب نے فراموش کر دی۔ لیکن یہ کوئی لگ بھگ پندرہ دن بعد کا واقعہ ہے جب وہی مہمان دوبارہ دروازے پر کھڑے تھے۔ اور پہلی بات جو انہوں نے ناہید کی ماں سے کہی وہ یہ تھی ۔ آج ہم لوگ غلطی سے آپ کے گھر تشریف نہیں لائے۔ بلکہ اپنے بیٹے کیلئے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔ بات چیت آگے بڑھی اور چند دن بعد منگنی میں بدل گئی۔
اور پرسوں جب ناہید کی ڈولی اٹھی تو مجھےاس محاورے پر یقین آگیا ہے کہ رشتے آسمانوں پر ہی بنتے ہیں
میم سین

No comments:

Post a Comment