جو لوگ اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بال میں سو سو دانے ہوں اور خدا جس (کے مال) کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔ وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے( سورۃ بقرہ آیت 261
میں ایسے الفاظ کا سہارا نہیں لے سکتا جن میں میرا دل دھڑکتا ہو۔کیونکہ الفاظ کی روح کو میں نے بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا ہے۔میں ہمیشہ سے سنگ بہاروں کی تلاش میں رہتا تھا۔گل پوش وادیوں کی سحر انگیزیاں ڈھونڈنے کی سعی میں رہتا تھا۔صبح کی فضائوں میں شبنم کے قطروں سے پیاس بجھانا چاہتا تھا۔لیکن یہ کیسا شعلہ لپکا ہے کہ جس نے میرے سحر انگیز خوابوں کو جھلسا کر رکھ دی ہے۔ میری تمنائوں میں ایک بھونچال لے آیا ہے۔یہ کیسی بپتا ہے کہ جس نے تاریخ کا منہ موڑ کے رکھ دیا ہے۔
بات بہت سادہ اور آسان ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ طالبان خارجی ہیں یا صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ اسلام کی اصل چہرے کو پیش کر رہے ہیں یا پھر وہ گمراہ گروہ ہے۔ یا پھر یہ کہ فوج کا اقدام درست ہے یا پھر وہ بھی کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان کے نیچے بے سروسامانی کا شکار ہیں۔کیا وہ ہمارے مسلمان بھائی نہیں ہیں؟کیا وہ انسان نہیں ہیں۔؟ اآخر ان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے؟؟
اگر ہم نماز پڑھتے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔تو یقیناً ہم مسلمان ہیں ۔ اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں۔اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ تو آئیے اس درد کو محسوس کریں۔یہ کوئی فریاد نہیں ہے کوئی التجا نہیں ہے۔یہ زندگی کے حق کی پکار ہے۔اس جذبے کی تلاش ہے جس کے بنا فطرت کے سارے رنگ پھیکے ہیں۔بے رنگ ہیں۔ادھورے ہیں۔ وہ جذبہ ہے اخوت کا، بھائی چارے کا۔ہم اس سارے درد کا کوئی علاج نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔تشفی کے دو بول تو بول سکتے ہیں۔ نیکی کے جس جذبے سے فطرت نے ہمیں مالا مال کیا ہے اس جذبے کو بروئےکار لا کر ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں۔۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا،اس سال اپنے عمرے کا خرچ ان مسلمان بھائیوں کے نام کر دیں۔ دوستوں کیلئے مختص افطاری پر اٹھنے والے اخراجات کو ان بے گھر افراد کے نام کر دیں۔ہماری نیکیوں کا سہارا وہ لوگ بنیں جو اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ پر تکلف سحروافطار کے وقت ان مظلوم گھرانوں کو یاد رکھیں جو اس وقت مصیبت سے گزر رہے ہیں۔بےشمار ادارے اور فلاحی تنظیمیں ان بےسہارا افراد کی مدد کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کتنے احسن طریقے سے ان بے سہارا افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ الخدمت والوں کا کام بھی قابل تعریف ہے۔اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ایسی ہی بےشمار تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے سے آپ اپنےبھائیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہیں اپنی امنگوں کے گھوڑے دوڑاتے ، حالات سے لاتعلقی کے مسلسل رویے، ہماری زندگیوں میں بھی وہ دن نہ لے آئیں، جب ہمارے شہروں میں بھی صبا کی بجائے صرصر چلے گی۔ کوئل کی کوک میں آہ ہوگی اور بلبل گیتوں کی بجائے نوحے گائیں گی۔کلیاں چٹخنے سے پہلے نوچ لی جائیں گی۔مسرتیں دھندلا جائیں گی۔ نگہتیوں سے محروم کر دیا جائے گا۔مجھے ڈر لگتا ہے جب میرے بدن میں کانٹے چبھ رہے ہونگےاور کسی کا اس تکلیف کا احساس تک نہ ہوپائے گا۔۔۔۔۔
میم سین
میں ایسے الفاظ کا سہارا نہیں لے سکتا جن میں میرا دل دھڑکتا ہو۔کیونکہ الفاظ کی روح کو میں نے بھاری پتھر کے نیچے دبا دیا ہے۔میں ہمیشہ سے سنگ بہاروں کی تلاش میں رہتا تھا۔گل پوش وادیوں کی سحر انگیزیاں ڈھونڈنے کی سعی میں رہتا تھا۔صبح کی فضائوں میں شبنم کے قطروں سے پیاس بجھانا چاہتا تھا۔لیکن یہ کیسا شعلہ لپکا ہے کہ جس نے میرے سحر انگیز خوابوں کو جھلسا کر رکھ دی ہے۔ میری تمنائوں میں ایک بھونچال لے آیا ہے۔یہ کیسی بپتا ہے کہ جس نے تاریخ کا منہ موڑ کے رکھ دیا ہے۔
بات بہت سادہ اور آسان ہے لیکن بات سمجھنے کی ہے۔میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ طالبان خارجی ہیں یا صحیح العقیدہ مسلمان ہیں۔ وہ اسلام کی اصل چہرے کو پیش کر رہے ہیں یا پھر وہ گمراہ گروہ ہے۔ یا پھر یہ کہ فوج کا اقدام درست ہے یا پھر وہ بھی کسی کے اشاروں پر چل رہی ہے لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ لاکھوں افراد اپنے گھروں سے نکل کر کھلے آسمان کے نیچے بے سروسامانی کا شکار ہیں۔کیا وہ ہمارے مسلمان بھائی نہیں ہیں؟کیا وہ انسان نہیں ہیں۔؟ اآخر ان کو کس بات کی سزا دی گئی ہے؟؟
اگر ہم نماز پڑھتے ہیں۔ روزے رکھ رہے ہیں۔تو یقیناً ہم مسلمان ہیں ۔ اور مسلمان ایک جسم کی مانند ہوتے ہیں۔اگر جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارے جسم میں درد محسوس ہوتا ہے۔ تو آئیے اس درد کو محسوس کریں۔یہ کوئی فریاد نہیں ہے کوئی التجا نہیں ہے۔یہ زندگی کے حق کی پکار ہے۔اس جذبے کی تلاش ہے جس کے بنا فطرت کے سارے رنگ پھیکے ہیں۔بے رنگ ہیں۔ادھورے ہیں۔ وہ جذبہ ہے اخوت کا، بھائی چارے کا۔ہم اس سارے درد کا کوئی علاج نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار ضرور کر سکتے ہیں۔تشفی کے دو بول تو بول سکتے ہیں۔ نیکی کے جس جذبے سے فطرت نے ہمیں مالا مال کیا ہے اس جذبے کو بروئےکار لا کر ان کے سروں پر شفقت کا ہاتھ تو رکھ سکتے ہیں۔۔کیا ایسا نہیں ہوسکتا،اس سال اپنے عمرے کا خرچ ان مسلمان بھائیوں کے نام کر دیں۔ دوستوں کیلئے مختص افطاری پر اٹھنے والے اخراجات کو ان بے گھر افراد کے نام کر دیں۔ہماری نیکیوں کا سہارا وہ لوگ بنیں جو اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ پر تکلف سحروافطار کے وقت ان مظلوم گھرانوں کو یاد رکھیں جو اس وقت مصیبت سے گزر رہے ہیں۔بےشمار ادارے اور فلاحی تنظیمیں ان بےسہارا افراد کی مدد کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ کتنے احسن طریقے سے ان بے سہارا افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ الخدمت والوں کا کام بھی قابل تعریف ہے۔اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ایسی ہی بےشمار تنظیمیں ہیں جن کے ذریعے سے آپ اپنےبھائیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہیں اپنی امنگوں کے گھوڑے دوڑاتے ، حالات سے لاتعلقی کے مسلسل رویے، ہماری زندگیوں میں بھی وہ دن نہ لے آئیں، جب ہمارے شہروں میں بھی صبا کی بجائے صرصر چلے گی۔ کوئل کی کوک میں آہ ہوگی اور بلبل گیتوں کی بجائے نوحے گائیں گی۔کلیاں چٹخنے سے پہلے نوچ لی جائیں گی۔مسرتیں دھندلا جائیں گی۔ نگہتیوں سے محروم کر دیا جائے گا۔مجھے ڈر لگتا ہے جب میرے بدن میں کانٹے چبھ رہے ہونگےاور کسی کا اس تکلیف کا احساس تک نہ ہوپائے گا۔۔۔۔۔
میم سین
No comments:
Post a Comment