Thursday, July 18, 2013

میرانقطہ نظر


چلیں ، سوچنے سے پہلے ایک بار اپنی سوچ کا زاویہ بدل کر دیکھیں۔ ملالہ کے اس واقعے کو مذہبی رنگ سے دور رکھیں۔اس کی عمر اور جنس کی بنیاد پر بھی تشخیص نہ کیجئے۔ موجودہ قبائلی چپقلش کا بھی سہارا نہ لیں اور اس واقعے کو ایک نیوٹرل آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کریں۔چلیں نیوٹرل نہ سہی ایک پاکستانی کی نظر سے ہی دیکھ لیں۔کیا آپ کو ملالہ، خواتین کی تعلیم کیلئے ایک شمع کی مانند دکھائی دیتی ہے ؟ کیا وہ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کیلئے ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے؟ ملالہ ایک علامت ہے ، جہالت کے اندھیروں میں روشنی کی، شعور کی، بیداری کی؟؟؟ ملالہ نام ہے اس نور کا ،جس کی روشنی سے دھرتی کے سب اندھیرے شق ہوگئے ہیں۔ملالہ علامت ہے اس جدوجہد کا، جو پانی کی موجیں سنگلاخ چٹانوں پر آزماتی ہوئی اپنے لئے رستہ تلاش کرتی ہے،شائد میں یہ سوچ سکتا اور شائد یہ بات صحیح ہو تی ۔۔ اس کو درست سمجھا جا سکتا تھا اگر ملالہ علامت ہوتی محض قبائلی علاقوں کی۔ملالہ نمائندگی کر رہی ہوتی صرف طالبان کے زیراثر حلقوں کی۔ ملالہ نام  نہ ہوتا اس علامت کا ،جو ترجمانی کر رہی ہے پانچ صوبوں کی،ساڑھے نو کروڑ عورتوں کی ۔ ملالہ نمائندہ ہے پورے پاکستان کی، اس کی شہریت پاکستانی ہے اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے وہ بحیثیت قوم ہماری جہالت، ظلم، زیادتی، بربریت کی آواز زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ ملالہ روشنی کی ایک کرن سے زیادہ ہماری محرومیوں کی ترجمان زیادہ ہے۔ وہ علامت ہے ہماری بے روح جسموں کی،ہماری کوتاہیوں اور کمزوریوں کی، وہ نمائندگی کرتی ہے ہماری خود داری اور غیرت پر لگے دھبوں کی، جہالت اور نادانی کی کی۔۔ چند لمحوں کیلئے ملالہ کو بھول جایئے، جا کر لاطینی امریکہ کے کسی دور دراز ملک کی گیبریلا کو ذہن میں لائیں۔جو وہاں کی سماج کے خلاف لڑتے ہوئے ان کی نمائندہ بن جاتی ہے ۔ اور ملالہ کے واقعہ کو ذہن میں لائیں اور اب اس ملک کا جونقشہ اور تصویر آپ کے ذہن میں بنے گی اس کا ذ را تصور اپنے ذہن میں لائیں۔نگاہوں کے سامنے وہ خاکہ ذرا لے کر آئیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی عالمی سطح پر شناخت ہمیشہ تیزاب سے متاثرہ خواتین کی کہانیوں، زیادتی کا شکار عورتوں، اقلیتوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک، پنچایئت کے غیر انسانی فیصلے، وٹہ سٹہ اور کم عمر کی شادیاں ہی بنتی ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی نمائندگی ہمیشہ مختاراں مائی، رمشا مسیح ، آسیہ بی بی یا یا فاخرہ جیسی خواتین سے ہی کروائی جاتی ہے؟ کیا عارفہ کریم اس بات کی مستحق نہیں سمجھی جا سکتی کہ اس کی زندگی پر فلم بنائی جائے۔جس نے پاکستان کی عورت کی قابلیت کا لوہا ساری دنیا سے منوایا۔ کیا مظفر آباد کے نواح کی زینب کو اس بات کا مستحق نہیں سمجھا گیاکہ اس کی زندگی پر امید اور حوصلے کے نام پر کوئی این جی او قائم کی جاتی جس نے زلزلے سے تباہ حال سکول میں تختہ سیاہ رکھ کر بچوں کی تعلیم شروع کر دی تھی۔ مستحق تو علی نوازش بھی تھا کہ وہ ملک کی نمائندگی عالمی فورمز پر کرتا، حق تو حکیم محمد سعید کا بھی بنتا ہے کہ اس کے تعلیمی خدمات پر کوئی فلم بنتی اور وہ کسی عالمی آوارڈکی مستحق قرار پاتی۔ چلو اس شخص کو ہی کسی فورم پر بلا کر اس کے تجربات سے فائدہ اٹھا لیا جاتا جو پنڈی کے گردوجوارمیں پچھلی کئی دھائیوں سے جھگیوں اور محنت کش بچوں کو تعلیم کے زیور سے آرستہ کر رہا ہے۔سچ بات ہے عالمی میڈیا کو پاکستان کی نمائندہ کوئی خواتین چاہیئے تھیں تو وہ ان تین بہنوں کو ہی لیکر کوئی ڈا کومنٹری بنا لیتا ، جنہوں نے ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتے ہوئے ایک ساتھ سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا۔حق تو یہ بنتا تھا کہ گوجرانوالا کی شازیہ کیلئے قومی پرچم سرنگوں ہوجاتا اور بی بی سی کی ہیڈ نیوز میں اس کی عظیم قربانی کا ذکر ہوتا۔ مستحق تو عبدلستار ایدھی بھی ہے کہ اس کی زندگی پر پر کوئی ڈاکومنٹری بنتی اور کینز کے میلے میں پیش کی جاتی، اور نوبل انعام نہ سہی اس کی نامزدگی کر کے ہی پاکستان کا نام بلند کر دیا جاتا۔لیکن نہیں ایسے کسی بھی کردار کو جو ہمارے روشن ذہنوں اور ایک مہذب معاشرے کی نمائندگی کرے اسے کبھی بھی عالمی سطح پر نمائندگی نہیں دی جاتی، کوئی بھی ہستی اس معیار پر پورا نہیں اترتی جو ایک حقیقی معنوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہو۔ پاکستان کی نمائندگی کا مغرب کا معیار کچھ اور ہے۔ یہاں سے نمائندگی کا حق صرف وہ رکھتا ہے جو پاکستانی عوام کی ظلم وجبر کی داستان ہو، جو یہاں کے رہنے والوں کی فسطائیت کی زندہ مثال ہو، جہاں سے مذہبی تعصب کی بو آتی ہو۔جہاں سے فرقہ واریت کا زہر پھیلتا ہو۔ جس سے جنسی تفریق کا پہلو نمایاں ہوتا ہو۔ جہاں سے ہمارے معاشرے کے تاریک پہلوؤں کو اجاگر کیا جا سکے۔ جہاں سے ہماری وحشت اور بربریت کی داستانیں سنا کر خوف وہراس کی فضا ئیں قائم کی جاسکے۔
آخر کب تک کامیابی کا معیارمغرب کا اقرار سمجھا جاتا رہے گا؟؟؟
میم سین

No comments:

Post a Comment