Thursday, July 4, 2013

مصر کا نوحہ


جب میں بہت چھوٹا تھا تو ماسی رحمتے کا وجود میرے لئے ہمیشہ رحمت بن کر سایہ کرتا رہا۔ مجھے جب کبھی گھر سے مار پڑتی،گھر میں کسی سے ڈانٹ ملتی یا جب کبھی احساس محرومی کا زہر رگوں میں اترتا تو بھاگ کر ماسی کی جائے پناہ میں چلا جاتا۔ ان کی آغوش میں میں اپنے آنسو پونچھتا ۔جب حبس زدہ ماحول میں میرا دم گھٹنے لگتا تو میں بھاگ کر ماسی کے آنگن میں اتر جاتا جہاں ماسی کی باتوں کے تروتازہ جھونکے میری روح میں ایک تازگی پھونک دیتے تھے۔ میرا  اور ماسی کا کیا تعلق تھا؟۔ کونسا سا رشتہ تھا؟ یہ مجھے اس دن معلوم ہوا جب وہ سفید کپڑے میں لپٹی چارپائی میں لیٹی ہوئی تھی اور سارا محلہ ان کے گرد جمع تھا۔ ماسی کے مرنے کے بعد وہ پہلی رات تھی جب ساری رات میرے کمرے میں سسکیوں کی آواز گونجتی رہی تھی اور میں ساری رات خوفزدہ رضاعی میں چھپا رہا تھا۔کیونکہ یہ زندگی کا پہلا کرب تھا جو میں نے محسوس کیا تھا۔کئی دنوں تک یہ سسکیاں رات کو میرا پیچھا کرتی رہی تھیں۔ ان کے جانے کے بعد کئی دن تک دنیا پھیکی محسوس ہوتی رہی تھی۔ ایک بے معنی زندگی، جس میں نہ اداسی تھی نہ کوئی دکھ۔ بس ایک ایسا احساس جدائی تھا جس کا کوئی نام نہیں تھا۔زندگی کے اصول اور ضابطے بدل گئے تھے۔ ایک تنہائی تھی، ایک وحشت تھی۔اور پھر ان سسکیوں نے میرے کمرے میں ہمیشہ کیلیے ڈیرے ڈال لئے۔ مجھے لگتا تھا محرومیوں کا شکار کوئی انسان یا کوئی تاب ناک خواب حقیقت سے پہلے جب میرے ارد گرد دم توڑتا ہے تو تو میرا شعور جذبات کی تاب نہیں لا سکتا اور وہ کسی کتھارسس کیلئے میرے ارد گرد ایک ہالہ جما لیتا ہے ۔ جس کی روشنی میں وہ کوئی راستہ ڈھونڈنا چاہتا ہے، کوئی حل تلاش کرنا چاہتا ہے۔ لیکن میرے کمرے میں سسکیاں اس دن نہیں اٹھی تھیں جس دن ٹوکیو کے سٹیشن پر زہریلی گیس سے کچھ لوگ حملہ آور ہوئے تھے۔ یہ اس دن بھی بلند نہیں ہوئی تھیں جس دن ڈیوڈ کوریش نے خود کو اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت ہلاک کر لیا تھا، اور وہ رات بھی خموشی سے گزر گئی تھی جب کم سنگ کی موت پر ساری شمالی کوریا کی عوام روتی رہی تھی۔ وہ رات بھی چپ چاپ ہی گزر گئی تھی جس دن ہیوگو شاویز کیلئے دن بھر آہیں بلند ہوتی رہی تھیں ۔ ان آہوں اور سسکیوں نے  تو برازیل کے لاکھوں لوگوں کے احتجاج کو بھی محسوس نہیں ہونے دیا تھا۔۔ لیکن اس دن ، میں رات بھر نہیں سو سکا تھا جب خلیج کی پہلی جنگ کی خبر ملی تھی۔ میری روح کس قدر مضطرب رہتی تھی جب روس کی واپسی کے بعد خانہ جنگی کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی تھیں۔۔ میں اپنے کمرے کی وں کو کیسے بھول سکتا ہوں جس دن روسی فوجیں گروزنی میں داخل ہوئی تھیں۔ہاں اس دن میرا کمرہ ضرور چیخوں سے بھر گیا تھا جس دن طالبا ن نے کابل کا کنٹرول چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ سسکیاں اس دن بھی میرا پیچھا کرتی رہی تھیں جس دن امریکی فوجییوں نے بغداد کو اپنے بوٹوں سے روندا تھا ۔ میری راتوں کی نیند تو شامل اور زرقاوی کی موت نے بھی برباد کی تھی۔میری روح تو ان ہچکیوں میں کئی روز تک کرب کا شکار رہی تھی ۔جس دن اسامہ بن لادن کی پراسرار موت کی خبر نشر ہوئی تھی۔میں ان سسکیوں کے خوف سے فلسطین اور کشمیر سے آنے والی خبروں سے دور رہنے کی کوشش کرتا رہاہوں۔  میں ہر اس پیج کو بلاک کرتا چلا آیا ہوں جہاں شام کے قتل و غارت کی خبروں کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ میں نے برما میں کٹتے مسمانوں کی خبروں کو بھی شوشل میڈیا کا پراپیگنڈہ قرار دے کر اپنے کمرے کے سکون کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جب اخباروں میں ڈرون حملوں کی خبریں چھپنا شروع ہوئیں تو اخبار خریدنا بند کر دیا تھا۔ جس رات میرا کمرہ آہوں اور سسکیوں سے بھر جائے تو میری روح ایک بوجھ تلے دب جاتی ہے۔ ساری دنیا غمگین اور اداس ہوجاتی ہے۔میں خود کو ایک سسکتا ہوا انسان محسوس کرتا ہوں ۔ آگ کے بگولوں میں لپٹا ایک مسافر۔خلش بڑھ جاتی ہے ۔دل کو کوئی انجانا سا احساس مسلنے لگتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تو تب ہوتا ہے جب مجھ سے کوئی پیارا چھن جاتا ہے۔ جب کوئی سر بازار میرے خوابوں کو لوٹ لیتا ہے۔جب میرے ارمانوں اور آرزوؤں کا سورج غروب ہوجاتا ہے۔لیکن یہ کیسی تلخ خبر تھی ؟جو قاہرہ کی فضاؤں سے بلند ہوئی ہے اور میرے لئے آہوں اور سسکیوں کی ایک خلش لے آئی ہے۔ بھلا میرا اور مصر کا کیا رشتہ تھا کہ میں ایک خبر سن کر ٹوٹ کر رہ گیا ہوں۔ بھیانک رات کی تاریکی اور خاموشی میں کل میرا کمرہ سسکیوں سے اتنا گونجتا رہا ہے کہ میری روح شدت جذبات سے کانپتی رہی ہے۔ ساری رات میرا دماغ غم والم سے پگھلتا رہا ہے۔ بول اے سر زمین مصر میرا اور تیرا کیا رشتہ ہے؟ کہ تیری فضاؤں سے اٹھنے والی ایک خبر نے میری زندگی اس قدر بے معنی اور پھیکی بنا ڈالی ہے۔ بول اے اہرام مصر کی سر زمین تیرا اور میرا کیا تعلق ہے ؟ تیری ہواؤں نے میرے خوابوں کو اس قدر وحشت ناک کر دیا کہ کہ میں سونے سے ڈر رہا ہوں ۔مجھے یوں لگ رہا ہے کوئی بہت زور سے طوفان آیا ہواہے۔ہوا کے تیز تھپڑوں نے بڑے بڑے پتھروں کو لڑکھڑا کر میرے اوپر پھینک دیا ہے۔میں کسی تاریک غار میں بند ہو گیا ہوں ۔ اور بہت تیز بارش اور تیز آند ھی کی آواز میرے کانوں سے ٹکڑا رہی ہے ۔میں ڈر رہا ہوں کہ کچھ ہی لمحوں بعد پہاڑوں سے بہتا ہوا یہ پانی مجھے بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔
میم ۔سین

1 comment: