Sunday, July 21, 2013

مولبیوں کا پاکستان

کل شام افطار سے فارغ ہوا تو حامدبھائی کا فون آگیا جو پی ایچ ڈی کے سلسلے میں جرمنی میں مقیم ہیں۔ملنے کیلئے مشتاق تھے اور مجھے بھی ان کی اچانک آمد پر خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔تشریف لائے جلدی کے باوجود ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں۔ایک بڑا دلچسپ واقعہ سنایا کہ وہ جس سال جرمنی گئے تھے تو ہوسٹل میں قیام کا فوری بندوبست نہ ہوسکا اس لئے ایک ضعیف جوڑے کے ہاں کرایہ پر سکونت اختیار کی۔جو کہ کٹر قسم کے عیسائی تھے۔ سارے گھر میں عیسیٰ اور مریم کی تصاویر تھیں۔دیواریں صلیبوں سے بھری پڑی تھیں۔۔گھر کا کچن ہمارے مشترکہ استعمال میں تھا۔ایک شام مجھے کسی چیز کی ضرورت پیش آئی تو کچن کا رخ کیا ،وہاں پر ہلکی لائٹ کا بلب جل رہا تھا اورکھسر پھسر کی آواز آرہی تھی۔میں اندر گیا تودیکھا دونوں میاں بیوی کھانا کھانے میں مشغول تھے ۔ میں نے آدھی رات کو اس تکلف کی وجہ پوچھی تو ان کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا کہ ہمارے روزوں کا مہینہ چل رہا ہے۔اور اس خیال سے کہ سارا دن تھکے ہارے آتے ہو کہیں ہماری وجہ سے تمہاریاآرام متاثر نہ ہوجائے اس لئے سارے کام اتنے خاموشی اور احتیاط سے کرتے تھے۔ حامد بھائی تو چلے گئے لیکن ان کا سنایا ہوا یہ واقعہ میرے ذہن سے اٹک کر رہ گیا ہے۔
آج سے چند سال پہلے تک جب رمضان کریم شروع ہوتا تھاتو اس کا مطلب ایک ماہ کیلئے زندگی کا سکون اور آرام غارت ہوجانا ہوتاتھا۔اسلام کے نام پر مولبیوں کے ہاتھوں نا صرف رمضان کا پورا مہینہ بلکہ پوری قوم کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا۔مولوی ہوتے تو شائد کوئی شعور ہوتا، کوئی سوجھ بوجھ ہوتی۔لیکن یہ گنوار اور اجڈمولبی صرف اسلام کا نام استعمال کرنا جانتے تھے لیکن اس کی روح اور اس کے اصل سے قطعی بے خبر تھے۔ شہروں میں ان کے غضب کی شدت شائد اس قدر نہیں ہوتی تھی لیکن جو دھماکہ چوکڑی وہ دیہاتوں اور قصبوں میں مچاتے تھے اس سے کوئی بزرگ، بیمار یا طالب علم محفوظ نہیں رہتا تھا ۔ رات کے کسی پہر مساجد کے کے سپیکر آن ہوجاتے تھے اور اور پھر وہ اودھم مچایا جاتا تھا کہ خدا کی پناہ۔۔۔یہ مسجد ابوبکر ہے، رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی سپیکر کا کنٹرول بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر جب تک سحری کا وقت ختم نہیں ہوجاتا سپیکر بند نہیں کئے جاتے۔یہ مسجد معاویہ ہے۔ ان کے قاری صاحب کو گمان ہے کہ وہ بہت خوش الحان ہیں اور رات کو ایک بجے سپیکر کھول کر قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دیتے ہیں۔جب تھک جاتے ہیں تو سپیکر بچوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ مسجد عمر ہے ۔ مولبی صاحب کو نیند نہیں آرہی اور انہوں نے ایک بجے سپیکر آن کرنے کے بعد رمضان کی آمد کے بارے میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے ہیں۔یہ مسجد عثمان ہے۔ رات دو بجے سے لیکر سحری کے پانچ بجنے تک مولبی صاحب پہلے اپنی کرخت آواز میں کوئی نعتیہ شعر پڑھتے ہیں اس کے بعد سارے محلے کو باخبر کرتے ہیں کہ سحری ختم ہونے میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے ۔اور یہ ہلہ گلہ صرف رمضان تک ہی محدود نہیں رہتا تھا بلکہ جمعرات کی شام اور جمعہ کے روز بھی اسلام کے نام پر پورے محلے اور گاؤں کو یرغمال بنا لیا جاتا تھا،ان مولبیوں کی ذہنی پسیماندگی کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بات ان کیلئے قابل فخر ہوتی تھی کہ سارے شہر میں سپیکرز کی سب سے اونچی آواز ان کی مسجد کی ہے۔ محلے میں کسی کی کیا مجال ہے وہ اس اودھم کے خلاف ایک لفظ بھی بول جائے۔بھلا اعتراض کرکے دائرہ اسلام سے رخصتی کا سامان کرنا ہے۔دن کو چندے کے نام پر سپیکر کھلے ہیں تو راتوں کو سیرت کانفرنس کے نام پر سارے محلے کا سکون غارت کیا جا رہا ہے۔اور پھر بھی اس کو اسلام سمجھنا یہ صرف مولبیوں کی ہی سوچ ہوسکتی تھی ۔لیکن سنا ہے فرعون نے بھی اپنے جرم و جبر کے دنوں میں موسیٰ کو پال کر ایک نیکی کی تھی کچھ ایسی ہی نیکی مشرف نے اپنے دور میں ان مولبیوں کو لگام دے کر کی تھی۔
میم۔ سین

No comments:

Post a Comment