Tuesday, July 2, 2013

آنکھ سے آنکھ تک

فیس بک سے دوری کی ایک وجہ تو شائد وہ فرسٹیشن تھی جو ایک حقیقی اور تصوراتی دنیا کے اختلاط سے پیدا ہوتی ہے۔ یا شائد یہ ثابت کرنا بھی مقصود تھا کہ فیس بک کا نشہ چھوڑنا میرے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔یا پھر شائد میرے اوپر وہ وہم طاری ہوگیا تھا کہ میں اتنا عظیم انسان نہیں ہوں جتنا میں حقیقت میں ہوں۔ اگرچہ یہ بات پہلے بھی کئی بار ثابت کر چکا ہوں لیکں یار لوگ اس بات پر اعتبار نہیں کر رہے تھے۔ اعتبار تو شائد وہ اب بھی نہ کریں لیکن ساری دنیا کو راضی کرنا میری زندگی کے مقصد میں شامل نہیں ہے اور نہ ایسا کوئی ارادہ ہے۔۔شائد میں اپنے آپ سے کئے گئے ایک ماہ کی فیس بک سے دوری کے عہد پر قائم رہتا اگر ایک عظیم مقصد کی طرف میرا دھیان نہ چلا گیا ہوتا۔ وہ مقصد تھا طاہر شاہ کیلئے نشان امتیاز کا حصول۔زندگی کے جس حصے میں آکر موصوف نے جو کچھ لکھا ہے اوہ اس لئے بھی قابل قبول ہونا چاہیئے کہ کہ زندگی میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب زندگی میں خوشی اور غم کے معیار تبدیل ہو جا تے ہیں ۔ وہ ہنس رہا ہوتو لوگ سمجھتے ہیں کہ رو رہا ہے اور رو رہا ہو تو خواہ مخواہ اس کے ساتھ مل کر جگتیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔۔پچیس سال کی ریاضت کے بعد اس عظیم شخص نے جو کچھ تخلیق کیا ہے، ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ پاکستانی قوم سب کچھ بھول کر اس کو اپنی آنکھوں میں بٹھا لیتی لیکن جن آنکھوں میں بھی وہ سمایا ہے آشوب چشم کی شکائیت ہی لے کر آیا ہے۔جب سے یہ گانا منظر عام پر آیا ہے۔ میرا جوڑوں کا درد ٹھیک ہوگیا ہے،میرے ہمسائے میاں باقر صاحب کا دائمی تبخیر معدہ کا مسئلہ بھی کسی حد تک رفع ہوگیا ہے۔ میرے ایک دوست نے تو باقائدہ ایک کلینک کھول کر اس گانے کے ذریئے علاج شروع کررکھا ہے کہ دو سیکنڈ سے روزانہ سے شروع کر کے بتدریج اس کا دورانیہ بڑھا کر بہت سے ناقابل علاج امراض کا علاج ڈھو نڈ نکالا ہے۔۔اس گانے کی کی افادیت کو نہ صرف عالمی سطح پر سراہا گیا ہے بلکہ عالمی میڈیا نے اس کا برملا اعتراف کرتے ہوئے اس کے تخلیق کار کو وکی لیکس کے بانی جولین سانچے کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی اداروں میں جس طرح اس گانے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جانا چاہیئے۔لیکن صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ میں پوچھتا ہوں ملالہ کیلئے رونے والے آج کدھر ہیں ؟ آئی ٹی میں سرٹیفیکیٹس حاصل کرنے والوں کو آسمان پر چڑھانے والے خاموش کیوں ہیں ؟۔ کرکٹ کے ہیروز کو آنکھوں پر بٹھانے والوں کی زبانیں آج چپ کیوں ہو گئی ہیں ؟ڈاکٹر قدیر خان اور ڈاکٹر عطاالرحمن کیلئے گن گانے والے آج کہاں سوئے ہوئے ہیں ؟ آخر یہ قوم طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں اتنا بخل سے کام کیوں لے رہی ہے ؟ وہ کون سی مصلحت ہے جس نے عظمت کے اس مینار کو ڈیوڈ کوپر فیلڈ کے ہاتھوں غائب کرا رکھا ہے؟ قوم کو یہ بات کیوں نہیں بتائی جا رہی کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے تفتیش کے دوران ملزمان کو جب صرف طاہر شاہ کی صرف آ ڈیو ہی سنائی تھی کہ انہوں نے نہ صرف عمران فاروق کے قتل میں معاونت کا اعتراف کر لیا بلکہ منی لانڈرنگ کے کھیل کے بارے میں بہت سی باتیں اگل دیں۔کراچی کی سنٹرل جیل میں قیدیوں کو بار بار وارننگ دی گئی کہ وہ غیر قانونی حرکتوں سے باز آجائیں لیکن کوئی کاروائی بھی موئثر ثابت نہیں ہو سکی۔ جب سپیکرز پر طاہر شاہ کی آواز کو بلند کیا گیا تو ایک گھنٹے کے اندر پستولوں ، نسوار، چرس، چاقوؤں اور دوسری غیر قانونی اشیا کا ڈھیر لگ گیا۔ایک دفاعی تجزیہ نگار کے مطابق پاکستانی فوج نے بھارت کی سرحد کے ساتھ جہاں جہاں بھارتی چوکیاں موجود ہیں وہاں پر بڑے سپیکر وں کی تنصیب کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔تا کہ کسی بھی بھارتی اشتعال کی صورت میں جوابی کاروائی کے طور پر آئی ٹو آئی بلند آواز سے چلایا جائے گا۔غیر ملکی سیاحوں کے قتل میں ملوث افراد کی تلاش میں ناکامی کے بعد جب پہاڑوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریئے اس گانے کو بار بار چلایا گیا تو دو افراد نے فوری طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔ شنید ہے کہ باقی اس گانے کی تاب نہ لاتے ہوئے اس جہان فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ جس کے بعد حقوق انسانی کی تنظیموں نے ایک الگ بحث شروع کر دی ہے۔ خفیہ اداروں کی طرف سے طرف سے ملزموں سے اقرار جرم کرانے کیلئے اس گانے کا استعمال جہاں طاہر شاہ کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے وہیں پر قوم کی بے حسی پر ایک زور دار طمانچہ بھی ہے جو اس گانے کو نہ صرف حرف تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ تمسخر بھی اڑا رہی ہے۔ 

اور قوم کی اس بے حسی نے مجھے مجبور کر دیا کہ کہ میں اپنا خودساختہ بائیکاٹ ختم کر کے طاہر شاہ کی حمائیت میں نکل پڑوں۔ اور ان کے لئے سب سے بڑا شہری اعزاز دلانے کیلئے اپنی ساری توانیاں صرف کر دوں۔

No comments:

Post a Comment