Saturday, June 15, 2013

ڈارون کا پاکستان


ڈارون جھو ٹ نہیں بولتا تھا ۔ وہ ایک سچا انسان تھا ۔ اس نے انسانی ارتقا کا جو نظریہ پیش کیا تھا وہ بالکل صحیح تھا۔ جی ہاں میں بقائمی ہوش وہواس یہ بات کہہ رہا ہوں۔ ڈارون نے جو کہا تھا وہ حرف بہ حرف درست تھا ۔ یہ جو انگریز کی بالا دستی کے سو سال تھے ۔ ان میں بغاوت کے نام پر، نفرت کی جوفصل لوگوں کے ذہنوں میں بوئی گئی تھی کہ سرکاری مال کو نقصان پہنچاؤ۔جتنا نقصان پہنچاؤ گے انگریز سرکار کمزور ہوگی۔ جہاں موقع ملے، اسے نقصان پہنچاؤ۔۔ ریلوے کی پٹریاں ہوں یا سکولوں کی عمارت، نہروں کے حفاظتی پشتے ہوں یا سڑک کنارے لگے سائن بورڈ، نئی سڑکیں ہوں یا کسی گراؤنڈ کی چار دیواری۔نقصان پہنچاؤ۔ جہاں ممکن ہواور جہاں تک ممکن ہو۔اپنی استطاعت کے مطابق نقصان پہنچاؤ۔ اگر تم بلب توڑ سکتے ہو تو وہ توڑ ڈالو، بجلی کے سوئچ کو نقصان پہنچا ؤ۔سرکاری سٹیشنری کو لوٹو۔۔ یوں ایک ارادی حرکت نسلوں کے بعد ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہے۔ہم آج بھی نہروں کے پشتے اکھیڑ دیتے ہیں۔ سائن بورڈ توڑ دیتے ہیں۔ سرکاری گاڑی کا استعمال اس بے رحمی سے کرتے ہیں کہ ایک سال بعد ورکشاپ میں کھڑی ہوجاتی ہے۔ ٹرین سے بلب چوری کرنا، سیٹوں کو بلیڈ سے کاٹ دینا، دیواروں کو سیاہی سے خراب کرنااب ہماری خصلت میں    شامل ہوچکا ہے اور سرکار کے بارے میں ہمارا رویہ آزادی کے بعد بھی غلامی جیسا ہے۔ حکومتوں کو بدستور گالیاں دیتے ہوئے سرکاری ملازمت کیلئے پہلی صف میں کھڑے نظر آنے والے مملکت خداد پاکستان کی عوام سرکار کو نقصان پہنچانے میں ہمیشہ پیش پیش نظر آئی گی۔کیونکہ ڈارون کے نظریے کے مطابق اب یہ عادتیں ہمارے جینز میں شامل ہوگئی ہیں اور اصلاح طلب نہیں رہی ہیں ۔ ابھی جینز میں حلول کر جانے والی یہ غلامانہ سوچ ہی اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہی تھی کہ ہم نے ترقی کی دوڑ میں اکیڈمیوں کی شکل میں برائلر مرغیوں کی طرز پر کنٹرول شیڈز قائم کر دیئے ہیں۔ جہاں ذہین طالب علموں کو رکھ کر ان میں علم کی مخصوص غذا داخل کی جاتی ہے جس کے بعد وہ امتحانوں میں امتیازی نمبر لے کر پروفیشنل اداروں میں داخل ہو رہے ہیں۔چند سالوں بعد پروفیشنل اداروں میں مکمل اجارہ داری کرنے والی اس برائلر نسل کی اپنی کوئی سوچ نہیں ہے ، اپنا کوئی وژن نہیں ہے۔پچاس کی دھائی میں افغانستان کے طالب علموں کو سکالرشپ دے کر ماسکو کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کے بعد ذہن سازی کیلئے کسی کے جی بی کی ضرورت نہیں تھی، ملک کے سکالرز اور پروفیسرز کو کانفرنسوں میں بلا کر پورے روس کی سیر کرانے کے بعد ان کے نظریات بدلنے کیلئے کسی لابی نے کام نہیں کیا تھا۔یہ بھی ایک طرح کی مرعوبیت تھی جس نے ٹینکوں پر سوار ہو کر ریچھ کو کابل آنے کی دعوت دی تھی۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی طرف سے ذہین طلبا کو سکالرشپ دے کر نام نہاد ترقی یافتہ مملک کی یونیورسٹیوں میں بھیج کر کر ان کے ذہن جو پہلے ہی کوئی وژن یا شعور نہیں رکھتے تھے اب مرعوبیت کا داغ سینوں میں سجائے پاکستان جیسے ملکوں میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ اسلام کو بتاتے ہیں۔اور مسلم ممالک کے سارے اجتماعی گناہ ایک ٹوکری میں ڈال کر سارا ملبہ اسلامی تحریکوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ملا کو حرف تنقید بنانااور سارا کیچڑ اس کی گود میں ڈال کر اپنی تمام اجتماعی ذ مہ داریوں سے عہدہ برا ہوجانا، اس مرعوب نسل کا خاص طرہ امتیاز ہے۔میڈیا کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے والی اس نسل کو وہی کچھ دکھایا جاتا ہے ،جو ان کو دکھایا جانا مقصود ہوتا ہے۔۔ ایک نسل تک تو یہ سب کچھ غیر محسوس انداز میں ہوتا  رہے گا اور پھر ڈارون کے قانون کے مطابق ان کے جینز میں ڈھل جائے گا اور پھر کوئی سوچ اور اور کوئی فکر ان کو تبدیل نہیں کر سکے گی۔کالاباغ ڈیم کا مسئلہ طالبان کا پیدا شدہ ہے۔ اور طالبان کے ہی کہنے پر نااہل افراد سفارت خانوں میں تعینات کئے جاتے ہیں جو ہماری شناخت پر لگے دھبوں پر کالک پھیر کر اسے مزید نمایاں کرتےنظرآتے ہیں۔ ان ملاؤں کے کہنے پر ہی پچھلے ساٹھ سالوں سے میرٹ کا استحصال ہوتا چلا آیا ہے اور ہر اہم عہدے کو مال مفت سمجھ کر لوٹا گیا۔اور یہ اسلامی شدت پسند ہی تھے جن کے کہنے پر لیاقت علی نے روس کا دورہ منسوخ کیا اور نہر سویز کے مسئلے پر مصر کی بجائے برطانیہ اور فرانس کی حمایئت پر مجبور کیا۔ ان وحشی مذہبی جنونیوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کردار ادا کیا اور بھٹو کو تمام صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومیا کر ملک کی معیشت کا جنازہ نکالنے کیلئے کہا۔ اور ان ہی ملاؤں نے ہر ڈکٹیٹڑ کے ساتھ حلف وفاداری دینے پر قابل احترام ججوں کو مجبور کیا۔یہ ملا ہی تھے جنہوں نے کشمیر میں فوج داخل کرنے کے قائداعظم کی حکم  عدولی پر مجبور کیا تھا ۔گورنر غلام محمد جیسے لوگوں کو صدارت کے محل تک پہنچایا تھا۔قلات کے ولی سے صلح کا معاہدہ کر نے کے باوجود پھانسی  پرچڑھا دیا تھا۔یحیی خان کو طالبان کے ہی تو کہنے پر صدر بنایا گیا تھا۔ ان مذہبی جنونیوں نے روس کو افغانستان آنے کی دعوت دی اور پھر ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ان مذہبی طبقہ فکر کی وجہ سے آج تک ہماری کوئی یونیورسٹی انٹرنیشنل رینکنگ حاصل نہیں کر سکی۔ ان ملاؤں نے سائنسدانوں کی حوصلہ شکنی کی اور ملک کو ٹیکنالوجی سے ہمیشہ دور رکھا۔اور یہ مولویوں کا ہی کیا دھرا ہے جو آج پبلک سروس کمیشن سے لیکر سول سروس جیسے ادارے بھی متنازعہ ہوگئے ہیں۔اور رینٹل پاور سکینڈل، این ایل سی سکینڈل، اوگرا فراڈ کیس، حارث سٹیل مل کیس، سوئس اکاؤنٹس سے لیکر کر سٹیل مل اور ریلوے کی تباہی میں یہ مذہبی حلقے ہی تو شامل رہے ہیں۔ ملک عزیز کی ترقی میں حائل صرف ملا ہے۔ اس لئے اس ملک سے مذہب کو نکال پھینکو۔۔۔۔ڈارون سچا تھا۔ ایک نسل کو دھوکے اور فریب میں رکھواور اپنی سوچ کی عینک ان کی آنکھوں پر چڑھا کراپنی مرضی کی دنیا دکھاؤ، اگلی نسل کو قابو کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی
میم۔سین

No comments:

Post a Comment