Monday, June 10, 2013

سوچنے کی بات



میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ ہم کس قدر احمق ہیں۔ سکول کا پرنسیپل پانچویں پاس لگا دیتے ہیں اور پھر جب مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو الزام کورس کو دے کر اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع کر دیتے ہیں۔عمارت کھڑی کرنے کیلئے دھوبی کی خدمات حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ناقص میٹریل کو الزام دے کر تحقیقات شروع کر دیتے ہیں۔ بھوک لگے تو منیاری کی دکان میں کھڑے ہو کر کھانے کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ کیا ترقی کا معیار اونچی عمارتیں، اچھی نوکریاں، بینک بیلنس اور ایک بڑا گھر ہے؟؟؟ کیا ان کے حصول میں دین مانع ہوتا ہے؟ کیا سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول میں دین کوئی پابندیاں لگاتا ہے۔؟حکمرانوں کے تعیش اور انداز حکمرانی کو دین کے کھاتے میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟
ہم سب شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں لیکن اس شرط پر کہ شریعت کا جو خاکہ ہمارے ذہنوں میں ہے یعنی شریعت کے نفاذ کا مطلب شہد کے تالاب اور دودھ کی نہریں ہے۔۔۔۔خوشحالی۔۔ ایک شاندار انداز زندگی اور امن وامان۔۔۔ کیا کبھی ذہنوں میں یہ بھی آیا ہے کہ شریعت کا نفاذ اللہ کا حکم ہے اور خواہ اس کیلئے پتھر کے زمانہ میں جانا پڑے۔۔۔۔۔۔۔
میم سین

No comments:

Post a Comment